وفاقی وزیر توانائی اویس لغاری نے غیر ملکی میڈیا کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا کہ حکومت آئی پی پیز کے ساتھ کیے گئے معاہدوں کو یکطرفہ طور پر ختم یا تبدیل نہیں کرے گی، البتہ نئی شرائط کے تحت باہمی رضا مندی سے ان معاہدوں پر نظرثانی کی جا رہی ہے۔
تفصیلات کے مطابق، اویس لغاری کا کہنا تھا کہ آئندہ دو ماہ میں قوم کو آئی پی پیز کے حوالے سے اچھی خبریں سننے کو ملیں گی۔ انہوں نے کہا کہ آئی پی پیز کے معاملے پر زیادہ شور شرابا نہیں کیا جا سکتا کیونکہ حکومت ذمہ دار ہے اور ذمہ داری کے ساتھ کام کرے گی۔
چین کے آئی پی پیز نے بحران کے دوران ملک میں سرمایہ کاری کی، اور چینی کمپنیوں کے ساتھ کیے گئے معاہدوں سے پیچھے نہیں ہٹا جا سکتا۔ بجلی کی قیمتوں کو خطے کے دیگر ممالک کے مطابق لایا جائے گا، اور ملک میں بجلی کی پیداواری لاگت اتنی زیادہ نہیں ہے۔
اویس لغاری نے مزید کہا کہ بجلی گھروں کا کرایہ فی یونٹ بجلی کو مہنگا بنا رہا ہے، لیکن چینی بجلی کارخانوں کو مقامی کوئلے پر منتقل کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔
چینی قرضوں کی "ری پروفائلنگ” کی جائے گی، جس سے پاکستان اور چینی سرمایہ کاروں دونوں کو فائدہ پہنچے گا۔ انہوں نے کہا کہ پنجاب کی طرح دیگر صوبوں کو بھی بجلی کے بلوں پر رعایت دینی چاہیے۔ پنجاب نے سستی بجلی کے لیے 45 ارب روپے مختص کیے ہیں، اور اگر سندھ ایسا کرے تو 10 ارب روپے لگیں گے، جبکہ خیبر پختونخوا کو بجلی کی رعایت کے لیے 8 ارب روپے درکار ہوں گے۔
اویس لغاری نے واضح کیا کہ آئی پی پیز کی پالیسی مہنگی بجلی کی وجہ نہیں ہے، بلکہ روپے کی گراوٹ کی وجہ سے بجلی 8 روپے فی یونٹ مہنگی ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مہنگی بجلی کی ذمہ داری کسی حکومت یا پالیسی پر نہیں ڈالی جا سکتی۔ بجلی کے شعبے میں تنظیمِ نو کی جا رہی ہے، اور 21 نقاطی اصلاحاتی ایجنڈے پر پیش رفت جاری ہے۔
وزیر توانائی نے کہا کہ نیٹ میٹرنگ صارفین کے ساتھ کیے گئے معاہدوں کی پاسداری کی جائے گی اور حکومت سولر پینلز کی حوصلہ شکنی نہیں کرے گی۔
جنرل ریٹائرڈ فیض کے معاملے پر بات کرتے ہوئے، اویس لغاری نے کہا کہ جنرل فیض کے کورٹ مارشل کا خیرمقدم کرتے ہیں، اور فوج کی جانب سے ادارہ کی خود احتسابی ایک بڑا قدم ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ احتساب کے عمل میں اعلیٰ عہدیداران کو بھی شامل کیا جانا چاہیے، اور اداروں میں خود احتسابی ایک مثبت آغاز ہے۔ پاکستان کے آئین میں فوجی عدالت کا کردار متعین کیا گیا ہے، اور اگر بانی پی ٹی آئی کا کیس دائرہ کار میں آتا ہے تو ان پر مقدمہ فوجی عدالت میں چلے گا۔