چین کی حکومت نے اعلان کیا ہے کہ وہ 10 اپریل سے امریکا سے درآمد ہونے والی تمام اشیاء پر 34 فیصد جوابی محصولات عائد کرے گا۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے چینی مصنوعات پر بھاری محصولات کے نفاذ کے بعد چین نے بھی جوابی کارروائی کرتے ہوئے امریکا سے درآمد ہونے والی تمام اشیاء پر 34 فیصد ٹیرف عائد کرنے کا اعلان کر دیا۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق، اس بار چین نے پہلے کے مقابلے میں زیادہ سخت ردعمل دیا ہے، جس میں صرف مخصوص اشیاء کے بجائے تمام امریکی درآمدات کو نشانہ بنایا گیا ہے۔
چین کی ریاستی ٹیرف کمیشن کے مطابق یہ نیا ٹیرف 10 اپریل سے نافذ ہوگا، جبکہ چینی وزارتِ تجارت نے نایاب معدنیات، جیسے سمیریم، گیڈولینیم اور ٹربیم، کی امریکا کو برآمد پر بھی پابندی عائد کر دی ہے۔
مزید برآں، چین نے 11 امریکی کمپنیوں کو "ناقابلِ اعتبار اداروں” کی فہرست میں شامل کر کے 16 کمپنیوں پر برآمدی کنٹرول بھی نافذ کر دیا ہے، جبکہ امریکا اور بھارت سے درآمد ہونے والی طبی سی ٹی ایکسرے ٹیوبز پر بھی انسدادِ ڈمپنگ تحقیقات شروع کر دی گئی ہیں۔
چین کے اس اقدام کے بعد امریکی اسٹاک مارکیٹس میں زبردست مندی دیکھی گئی، جس میں ڈاؤ جونز 1,000 پوائنٹس (2.3 فیصد) گر گیا، جبکہ ایس اینڈ پی 500 اور نیسڈیک میں بالترتیب 2.4 اور 2.7 فیصد کمی واقع ہوئی۔
چینی حکومت نے امریکی صدر کے اقدامات کو "یک طرفہ غنڈہ گردی” قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ بین الاقوامی تجارتی اصولوں کے منافی ہیں اور چین کے معاشی مفادات کو نقصان پہنچاتے ہیں۔
یہ تجارتی کشیدگی ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب ٹرمپ نے بدھ کے روز چین کی تمام درآمدات پر 34 فیصد اضافی محصول کا اعلان کیا تھا، جس کے بعد مجموعی امریکی محصولات کی شرح 54 فیصد سے تجاوز کر چکی ہے۔
امریکا اور چین کے درمیان اس بڑھتی ہوئی معاشی جنگ سے عالمی تجارتی ماحول میں مزید تناؤ اور بے یقینی کا امکان ہے۔