جمعہ, 25 اپریل , 2025

اگر قتل کے واقعے کی رپورٹ پولیس کو تاخیر سے دی جائے تو اس کا فائدہ ملزم کو پہنچے گا، لاہور ہائیکورٹ 

تازہ ترین خبروں اور تبصروں کیلئے ہمارا وٹس ایپ چینل جوائن کریں

لاہور ہائی کورٹ نے فیصلہ دیا ہے کہ اگر قتل کے واقعے کی رپورٹ پولیس کو تاخیر سے دی جائے تو اس کا فائدہ ملزم کو پہنچے گا۔

جسٹس شہرام سرور چودھری اور جسٹس سردار اکبر ڈوگر پر مشتمل دو رکنی بینچ نے ملزم واصف کی اپیل پر 16 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کیا، یہ فیصلہ جسٹس سردار اکبر ڈوگر نے تحریر کیا، جس میں قانونی نکتہ واضح کیا گیا۔

latest urdu news

فیصلے میں کہا گیا کہ ملزم واصف سعید اور دیگر کے خلاف 2018 میں قتل سمیت مختلف دفعات کے تحت مقدمہ درج ہوا تھا۔ ٹرائل کورٹ نے 2021 میں تین شریک ملزمان کو بری کر دیا، جبکہ واصف کو سزائے موت سنائی گئی۔

پراسیکیوشن کے مطابق قتل کا واقعہ رات 9 بجے پیش آیا، جبکہ پولیس اسٹیشن صرف تین کلومیٹر کے فاصلے پر ہونے کے باوجود مدعی نے پولیس کو دو گھنٹے سے زائد تاخیر سے اطلاع دی، جو ملزم کے حق میں جاتی ہے۔

عدالت کے مطابق پراسیکیوشن کا کہنا تھا کہ قتل رات 9 بجے ہوا، مگر پوسٹ مارٹم رپورٹ میں مقتول کی موت کا وقت 10 بجے درج ہے۔ ایف آئی آر درج کرانے میں تاخیر، پولیس کارروائی میں تاخیر اور پوسٹ مارٹم کے التوا نے واقعے کو مشکوک بنا دیا، جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ معاملہ اندھے قتل کا تھا۔

مدعی نے بیان دیا کہ مقتول نے ملزم کی بہن سے خفیہ شادی کر رکھی تھی، اور مدعی اپنی سوتن سے بات چیت کرنے کے لیے اپنے شوہر اور دیور کے ساتھ وہاں گئی تھی۔ فیصلے میں کہا گیا کہ ہمارے معاشرے میں عام طور پر پہلی بیوی، شوہر کی دوسری شادی کو قبول نہیں کرتی، لہٰذا یہ عجیب بات ہے کہ پہلی بیوی خود شوہر کے ساتھ جا کر دوسری بیوی سے معاملات طے کر رہی تھی۔

گواہوں کے بیانات میں تضادات کی نشاندہی کرتے ہوئے عدالت نے ملزم واصف سعید کی اپیل منظور کرتے ہوئے فوری رہائی کا حکم دے دیا۔

بعد ازاں، لاہور ہائی کورٹ نے غیرت کے نام پر قتل کے مقدمے میں سزائے موت پانے والے ملزم کو سات سال بعد بری کر دیا۔

شیئر کریں:
frontpage hit counter