اسرائیلی فوج نے اعلان کیا ہے کہ غزہ جنگ بندی معاہدہ باضابطہ طور پر نافذ ہو چکا ہے۔ اس معاہدے کے تحت ابتدائی مرحلے میں حماس کے 11 قیدیوں کو رہا کیا جا رہا ہے جبکہ اسرائیلی افواج نے غزہ میں طے شدہ لائنوں سے پیچھے ہٹنا شروع کر دیا ہے۔
عرب میڈیا کے مطابق جنگ بندی کے بعد غزہ کے شہری اپنے گھروں کو واپس جانا شروع ہو چکے ہیں، جبکہ کئی علاقوں میں اسرائیلی فوج نے جزوی انخلا کا آغاز بھی کر دیا ہے۔ شہریوں نے شدید تباہی کے مناظر میں اپنے گھروں کو واپس لوٹنا شروع کیا ہے۔
اس سے قبل اسرائیلی کابینہ نے اس جنگ بندی اور یرغمالیوں کے تبادلے کے معاہدے کی منظوری دی تھی۔ اہم اجلاس میں وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو کے ساتھ ساتھ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے داماد جیرڈ کشنر اور امریکی نمائندہ خصوصی اسٹیو وٹکوف بھی شریک ہوئے۔
اسرائیلی وزیراعظم کے دفتر کی جانب سے جاری بیان کے مطابق، اس معاہدے کے تحت تمام اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی کے بدلے تقریباً 2,000 فلسطینی قیدیوں کو رہا کیا جائے گا۔ اسرائیلی افواج غزہ کے 53 فیصد حصے سے بتدریج انخلا کریں گی۔
غزہ امن معاہدے پر آج ممکنہ دستخط، 24 گھنٹوں میں اسرائیلی فوج کے انخلا کا آغاز متوقع
معاہدے کے مطابق، اگلے 72 گھنٹوں میں حماس تمام یرغمالیوں کو مرحلہ وار طور پر رہا کرے گی، جبکہ اسی دوران فریقین جنگ بندی کی مکمل پابندی یقینی بنائیں گے۔ اس عمل کی نگرانی کے لیے ایک بین الاقوامی فورس تشکیل دی جائے گی۔
یہ امن معاہدہ کئی ماہ کے مذاکرات کے بعد سامنے آیا ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے پیش کردہ 20 نکاتی امن منصوبے کو پاکستان سمیت 8 مسلم ممالک کی حمایت حاصل ہوئی تھی، جس کے بعد اسرائیل نے بھی اس منصوبے کو قبول کیا۔
مصر میں ہونے والی بات چیت کے دوران حماس اور اسرائیلی حکام کے درمیان ثالثی ہوئی، جس کے نتیجے میں دو روز قبل معاہدہ طے پایا۔ امریکی حکام کے مطابق، معاہدے پر عمل درآمد کی نگرانی کے لیے 200 اہلکاروں پر مشتمل بین الاقوامی فورس تشکیل دی جائے گی، جس میں مصر، قطر، ترکی اور ممکنہ طور پر متحدہ عرب امارات کے فوجی شامل ہوں گے۔