26ویں آئینی ترمیم کیا ہے؟ کیا کیا تبدیلیاں کی گئی ہیں؟

تازہ ترین خبروں اور تبصروں کیلئے ہمارا وٹس ایپ چینل جوائن کریں

ایک ماہ سے آئینی ترمیم کے لیے کوشاں حکمران اتحاد کو گزشتہ رات بالآخر کامیابی مل گئی اور ترامیم کو سینیٹ کے بعد قومی اسمبلی سے بھی دو تہائی اکثریت سے منظور کر لیا گیا۔

پاکستان میں حالیہ دنوں میں 26ویں آئینی ترمیم کا عمل مکمل ہوا ہے، جسے پارلیمان میں بڑی اکثریت سے منظور کیا گیا ہے۔ یہ ترامیم حکمران اتحاد کی سیاسی کامیابیوں میں سے ایک سمجھی جا رہی ہیں، جنہوں نے سینیٹ اور قومی اسمبلی دونوں میں دو تہائی اکثریت حاصل کر کے آئینی تبدیلیوں کا راستہ ہموار کیا۔ اس قانون سازی کا بنیادی مقصد عدلیہ کے اختیارات کو کم کرنا اور جمہوری اداروں کی بالادستی کو یقینی بنانا تھا۔

latest urdu news

آئینی ترامیم کی تفصیلات

26ویں آئینی ترمیم میں تین اہم تبدیلیاں شامل کی گئیں:

سپریم کورٹ کے ازخود نوٹس اختیارات کو محدود کرنا: اس ترمیم کے تحت سپریم کورٹ کے ازخود نوٹس (سوموٹو) اختیارات ختم کر دیے گئے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ سپریم کورٹ یا ہائی کورٹس کے پاس اب یہ اختیار نہیں ہوگا کہ وہ اپنی مرضی سے کسی بھی معاملے میں مداخلت کریں۔ اب عدالتیں صرف انہی درخواستوں پر کارروائی کر سکیں گی جو ان کے سامنے باقاعدہ طریقہ کار کے تحت دائر کی گئی ہوں گی۔

چیف جسٹس آف پاکستان کی تقرری کا نیا طریقہ کار: اس ترمیم کے تحت چیف جسٹس کی تقرری کے لیے ایک خصوصی پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی جائے گی۔ اس کمیٹی میں حکومت اور اپوزیشن کے ارکان شامل ہوں گے، اور یہ کمیٹی سپریم کورٹ کے تین سینئر ترین ججز میں سے ایک کا نام وزیر اعظم کو بھجوائے گی۔ وزیر اعظم کو موصول ہونے والی سفارشات پر غور کر کے وہ چیف جسٹس کی تقرری کریں گے۔ اس تبدیلی کا مقصد چیف جسٹس کی تقرری کے عمل کو زیادہ جمہوری اور شفاف بنانا ہے۔

سپریم کورٹ میں آئینی بینچوں کی تشکیل: آئینی ترمیم میں ایک نیا آرٹیکل 191۔اے شامل کیا گیا ہے، جس کے مطابق آئینی بینچوں کی تشکیل میں ججز کی نمائندگی کو زیادہ متوازن بنایا گیا ہے۔ اس کے تحت آئینی نوعیت کے مقدمات کے لیے خصوصی بینچ تشکیل دیے جائیں گے جن میں سینئر ججز شامل ہوں گے۔

ترمیم کی پارلیمانی منظوری

یہ آئینی ترامیم سب سے پہلے سینیٹ میں پیش کی گئیں، جہاں انہیں 20 اکتوبر کو دو تہائی اکثریت سے منظور کر لیا گیا۔ اس کے بعد 21 اکتوبر کی صبح قومی اسمبلی نے بھی ان ترامیم کی منظوری دے دی۔ حکمران اتحاد نے گزشتہ کئی ماہ سے پارلیمان میں مختلف سیاسی جماعتوں سے مشاورت کر کے ان کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کی، تاکہ یہ ترامیم بآسانی منظور ہو سکیں۔

ترمیم کے حامیوں اور مخالفین کے دلائل

ان ترامیم کے حامیوں کا کہنا ہے کہ یہ تبدیلیاں ملک میں جمہوریت کو مضبوط کریں گی اور عدلیہ کے اختیارات کو محدود کر کے پارلیمان کی بالادستی کو یقینی بنائیں گی۔ ان کے مطابق، پارلیمانی کمیٹی کے ذریعے چیف جسٹس کی تقرری کے عمل سے عدلیہ کے اندرونی معاملات میں شفافیت آئے گی اور عدلیہ کا سیاسی اثر و رسوخ کم ہوگا۔

دوسری جانب، مخالفین کا کہنا ہے کہ یہ ترامیم عدلیہ کی خود مختاری پر حملہ ہیں اور حکومت کی جانب سے عدلیہ کے اختیارات کو محدود کرنے کی کوشش ہیں۔ ان کے مطابق، یہ ترامیم عدلیہ کو دباؤ میں لانے کا ایک ہتھیار بن سکتی ہیں اور اس سے انصاف کے عمل میں تاخیر پیدا ہو سکتی ہے۔

عوامی ردعمل اور آئینی ترامیم کے اثرات

ترمیمی بل کی منظوری کے بعد ملک بھر میں عوام کی طرف سے ملا جلا ردعمل سامنے آیا ہے۔ کچھ حلقے حکومت کے اس اقدام کو جمہوریت کے حق میں قرار دے رہے ہیں، جبکہ دیگر اس بات پر تشویش کا اظہار کر رہے ہیں کہ عدلیہ کی خود مختاری کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔

یہ آئینی ترامیم آئندہ برسوں میں پاکستانی سیاست اور عدالتی نظام پر گہرا اثر ڈال سکتی ہیں۔ آئینی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ ترامیم ملکی عدالتی نظام میں بڑی تبدیلیاں لائیں گی، اور ان کے اثرات کا اندازہ وقت کے ساتھ لگایا جا سکے گا۔

اختتامیہ

26ویں آئینی ترمیم پاکستان کی سیاسی تاریخ کا ایک اہم موڑ ہے۔ یہ ترمیم ایک بار پھر جمہوریت اور عدلیہ کے اختیارات کے درمیان توازن کے مسئلے کو سامنے لے آئی ہے۔ آئندہ کے سیاسی منظرنامے میں، یہ دیکھنا اہم ہوگا کہ یہ تبدیلیاں ملکی اداروں کے درمیان تعلقات پر کیسے اثر انداز ہوتی ہیں اور آیا یہ جمہوری عمل کے لیے مثبت ثابت ہوتی ہیں یا نہیں۔

News Alert Urdu

شیئر کریں:
frontpage hit counter