اسلام آباد، چیف جسٹس آف پاکستان نے کہا ہے کہ 9 مئی کے تمام مقدمات کا ٹرائل چار ماہ میں مکمل کرنے کے لیے ایک ہی بار حکم نامہ جاری کیا جائے گا۔
چیف جسٹس جسٹس یحییٰ آفریدی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے 9 مئی کے واقعات میں ملوث ملزمان کی ضمانت منسوخی سے متعلق اپیلوں پر سماعت کی۔
عدالت نے سینیٹر اعجاز چوہدری کی درخواست ضمانت پر پنجاب حکومت کو نوٹس جاری کرتے ہوئے سماعت جمعرات تک ملتوی کر دی۔
اسی دوران پی ٹی آئی رہنما حافظ فرحت عباس اور امتیاز شیخ کی عبوری ضمانت کی درخواستوں پر بھی سماعت ہوئی۔ عدالت نے حافظ فرحت عباس کو جمعرات تک گرفتاری سے روک دیا اور 50 ہزار روپے کے ضمانتی مچلکوں کے عوض ان کی عبوری ضمانت منظور کر لی، جبکہ امتیاز شیخ کی عبوری ضمانت میں بھی توسیع کر دی گئی۔
ایک اور مقدمے میں نامزد ملزم محمد فہیم قیصر کے وکیل بابر اعوان نے عدالت کو بتایا کہ 4 ماہ کی مدت میں ٹرائل مکمل کرنا عملی طور پر ممکن نہیں، کیونکہ بیشتر ملزمان کا تعلق متوسط طبقے سے ہے اور وہ طویل سفر کر کے عدالتوں میں پیش ہو رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ٹرائل کو سرگودھا کے بجائے میانوالی منتقل کیا جائے۔
چیف جسٹس نے واضح کیا کہ عدالت کی جگہ کا تعین سپریم کورٹ کا کام نہیں، بلکہ متعلقہ ٹرائل کورٹ ہی یہ فیصلہ کرے گی۔
بابر اعوان نے عدالت سے ایف آئی آر خارج کرنے کی استدعا بھی کی، جس پر چیف جسٹس نے مشورہ دیا کہ اس کے لیے متعلقہ فورم سے رجوع کیا جائے، چیف جسٹس نے کہا کہ قانون کے مطابق ٹرائل تین ماہ میں مکمل ہونا چاہیے، اور ہم اپنے حکم میں ایک واضح تاریخ بھی درج کریں گے تاکہ عمل درآمد یقینی بنایا جاسکے۔
بابر اعوان نے عندیہ دیا کہ وہ سپریم کورٹ کے اس فیصلے کو چیلنج کریں گے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ ایسا ضرور کرسکتے ہیں، تاہم اس وقت اپیل مسترد کی جاتی ہے۔
سپیشل پراسیکیوٹر ذوالفقار نقوی نے بھی ضمانت کے غلط استعمال سے متعلق نکات اٹھانے کی کوشش کی، جس پر چیف جسٹس نے انہیں مشورہ دیا کہ اگر ایسا کوئی معاملہ ہو تو متعلقہ فورم سے رجوع کیا جائے۔
بابر اعوان نے عدالت کو یقین دلایا کہ دفاعی فریقین بھرپور تعاون کر رہے ہیں، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت صرف قانون کے مطابق فیصلے کرے گی اور 9 مئی سے متعلق تمام مقدمات پر ایک ہی بار ٹرائل مکمل کرنے کا حکم جاری کیا جائے گا۔