راولپنڈی، پاکستان میں افغانستان سے لائے گئے غیر ملکی ہتھیاروں کے استعمال کے ٹھوس شواہد ایک بار پھر سامنے آ گئے ہیں۔
پاک فوج گزشتہ دو دہائیوں سے دہشت گردی کے خلاف برسرِ پیکار ہے، اور حالیہ دنوں میں افغان سرزمین سے ہونے والے دہشت گردانہ حملوں میں نمایاں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ دہشت گردوں کے پاس وہ اسلحہ موجود ہے جو افغانستان میں امریکی فوج چھوڑ کر گئی تھی۔ اسلحے کی یہ فراہمی خطے کے امن و استحکام کے لیے شدید خطرہ بنی ہوئی ہے۔
رواں سال 4 مارچ کو دہشت گرد گروہ فتنہ الخوارج نے بنوں کینٹ پر حملے کی ناکام کوشش کی، تاہم سکیورٹی فورسز نے فوری ردعمل دیتے ہوئے ان کے ناپاک عزائم خاک میں ملا دیے، ناکامی کے خوف سے حملہ آوروں نے بارود سے بھری دو گاڑیوں کو کینٹ کی دیوار سے ٹکرا دیا۔
آپریشن کے دوران سکیورٹی فورسز نے 16 دہشت گردوں، بشمول 4 خودکش حملہ آوروں، کو ہلاک کر دیا۔ مارے گئے دہشت گردوں کے قبضے سے بھاری مقدار میں اسلحہ اور گولہ بارود برآمد ہوا، جس میں ایم 4 کاربائن اور 40 ایم ایم وی او جی 25 پروجیکٹڈ گرینیڈز شامل تھے، یہ دہشت گرد مختلف پرتشدد کارروائیوں اور بے گناہ شہریوں کی ہلاکت میں ملوث تھے۔
اس سے قبل، 28 فروری کو سکیورٹی فورسز نے شمالی وزیرستان کے علاقے غلام خان کلی میں دہشت گردوں کی موجودگی کی مصدقہ اطلاع پر انٹیلیجنس بیسڈ آپریشن کیا، جس میں 6 دہشت گردوں کو ہلاک کر دیا گیا۔
یہ دہشت گرد سکیورٹی فورسز پر حملوں اور معصوم شہریوں کی جان لینے میں ملوث تھے۔ ان کے ٹھکانے سے ایم 24 سنائپر رائفل، ایم 16 اے 4 اور ایم 4 سمیت دیگر ہتھیار اور گولہ بارودبرآمد ہوا۔
اسی طرح، 15 فروری کو خیبر پختونخوا میں سکیورٹی فورسز کے ساتھ ہونے والی دو مختلف جھڑپوں میں 15 دہشت گرد مارے گئے۔
پہلا آپریشن ڈیرہ اسماعیل خان کے علاقے ہتھالہ میں کیا گیا، جہاں انٹیلیجنس بیسڈ آپریشن کے دوران 9 دہشت گردوں کو ہلاک کر دیا گیا۔
اسی روز، دوسرا آپریشن شمالی وزیرستان کے علاقے میران شاہ میں کیا گیا، جہاں سکیورٹی فورسز نے 6 دہشت گردوں کو انجام تک پہنچایا، ان دہشت گردوں کے قبضے سے اسلحہ اور بارودی مواد برآمد ہوا، جو دہشت گردی کی مختلف کارروائیوں میں استعمال کیا جاتا رہا تھا۔