صدر ٹرمپ کی جانب سے مہاجرین پروگرام کی معطلی نئی امریکی انتظامیہ کیساتھ پاکستان کے روابط کیلیے امتحان بن گئی۔
صدر ٹرمپ کی جانب سے ریفوجی پروگرام کی معطلی پاکستان اور نئی امریکی انتظامیہ کے تعلقات کے لیے ایک بڑا امتحان بن گئی ہے۔ یہ پروگرام 25 ہزار سے زائد افغان مہاجرین کو امریکا منتقل کرنے کے لیے تھا، جو کہ طالبان کے 2021 میں افغانستان میں اقتدار سنبھالنے کے بعد پاکستان میں عارضی طور پر مقیم ہیں۔
ان افغانوں کی اکثریت امریکی فوج یا اس کے کنٹریکٹرز کے ساتھ منسلک تھی، اور انہیں چند ماہ میں امریکا منتقل کیا جانا تھا۔ تاہم ساڑھے تین سال گزرنے کے باوجود ان کی منتقلی کا عمل مکمل نہیں ہوا۔ امریکی وکلاء کے مطابق، 1660 افغانوں کو ان کے اہلخانہ سمیت منتقلی کی کلیئرنس مل چکی تھی، لیکن ریفوجی پروگرام کی معطلی کے باعث ان کی پروازیں منسوخ ہو گئیں۔
پاکستانی حکام نے بارہا اس معاملے پر زور دیا ہے کہ ان افغان مہاجرین کی منتقلی کا عمل تیز کیا جائے۔ ذرائع کے مطابق، پاکستان کے لیے یہ صورتحال باعث تشویش ہے کیونکہ یہ افراد عام شہری نہیں بلکہ امریکی فوج اور انٹیلی جنس کے تربیت یافتہ ہیں، جو ملک کی سلامتی کے لیے ایک حساس مسئلہ بن سکتے ہیں۔
2023 میں غیر قانونی افغان مہاجرین کے خلاف پاکستان کے کریک ڈاؤن کے دوران، امریکی حکام نے اسلام آباد سے رابطہ کیا اور ان افغانوں کو رعایت دینے کی درخواست کی جو امریکا منتقل کیے جانے کے اہل تھے۔ تاہم، نئی پیش رفت کے بعد ان افغانوں کے لیے مسائل مزید بڑھ گئے ہیں۔
پاکستانی وزارت خارجہ اور امریکی حکام اس معاملے پر تاحال باضابطہ بیان دینے سے گریزاں ہیں، لیکن موجودہ صورتحال دونوں ممالک کے تعلقات میں ایک اہم موڑ ثابت ہو سکتی ہے۔