اسلام آباد، عالمی بینک نے پاکستان کے ٹیکس سسٹم کو "غیر منصفانہ اور بے معنی” قرار دیتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ جائیداد کو مؤثر طریقے سے ٹیکس نیٹ میں شامل کیا جائے اور اس کا درست اندراج کر کے ٹیکس عائد کیا جائے۔
عالمی بینک نے کہا کہ تنخواہ دار افراد پر بڑھتے ہوئے بوجھ کو صرف اس صورت میں کم کیا جا سکتا ہے جب ٹیکس نیٹ کو وسعت دی جائے اور تمام آمدنی کو اس میں شامل کیا جائے۔
عالمی بینک نے کہا کہ محصولات کے نظام میں اصلاحات کی ضرورت ہے کیونکہ موجودہ نظام قلیل مدتی فوائد دے رہا ہے، مگر طویل مدتی آمدنی کے مواقع ضائع ہو رہے ہیں۔
پائڈ کے وائس چانسلر ندیم جاوید نے اس بات پر تشویش کا اظہار کیا کہ 24 کروڑ کی آبادی میں صرف 50 لاکھ افراد ٹیکس ریٹرن فائل کرتے ہیں اور زیادہ تر ٹیکس جنرل سیلز ٹیکس (جی ایس ٹی) کے ذریعے وصول کیا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کا ٹیکس نظام انصاف کے اصولوں کے مطابق نہیں ہے، اور اگر ملک صرف 50 لاکھ فائلرز کے ساتھ چلتا رہا تو دیرپا حل ممکن نہیں ہوگا۔
پرائم کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر علی سلمان نے کہا کہ نظام میں وضاحت کی ضرورت ہے اور ودہولڈنگ ٹیکسز کی تعداد کم کی جائے، اس وقت 88 ودہولڈنگ ٹیکسز موجود ہیں جن میں سے 45 ٹیکسز کی آمدنی ایک ارب روپے سے بھی کم ہے۔