لاہور ہائیکورٹ میں نو مئی کے جلاؤ گھیراؤ کے مقدمات میں بانی پی ٹی آئی کی ضمانت کی درخواستوں پر اہم پیش رفت ہوئی ہے۔
بانی پی ٹی آئی کے وکیل بیرسٹر سلمان صفدر نے آٹھ مقدمات میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ بانی پی ٹی آئی پر آٹھ مقدمات درج ہیں، جن میں سے صرف تین میں انہیں نامزد کیا گیا ہے جبکہ باقی پانچ میں ان کا نام شامل ہی نہیں۔
انہوں نے عدالت کو بتایا کہ جن تین مقدمات میں بانی پی ٹی آئی کو نامزد کیا گیا ہے وہ جناح ہاؤس حملہ، عسکری ٹاور اور تھانہ شادمان جبکہ دیگر مقدمات میں انہیں نامزد نہیں کیا گیا۔
وکیل صفدر نے عدالت کو آگاہ کیا کہ ان تمام مقدمات میں آٹھ آٹھ اسپیشل پراسیکیوٹر تعینات کیے گئے ہیں، میں تو اکیلا ان آٹھ مقدمات میں دلائل دے رہا ہوں جس پر جسٹس شہباز رضوی نے کہا کہ یہ نہ کہیں کہ آپ اکیلے ہیں یہ سب لوگ آپ کے ساتھ ہی ہیں۔
سماعت کے دوران بیرسٹر سلمان صفدر نے ایف آئی آرز عدالت میں پڑھ کر سنائیں اور مؤقف اپنایا کہ ایف آئی آرز کا مقصد صرف دباؤ ڈالنا ہے جبکہ تمام ایف آئی آرز میں مدعی پولیس ہے اور تمام زخمیوں اور اطلاع دینے والوں کے نام ایک جیسے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ نو مئی کو بانی پی ٹی آئی کو القادر ٹرسٹ کیس میں سزا سنائے جانے کے بعد گرفتار کیا گیا جبکہ ٹرائل کورٹ میں بعداز گرفتاری ضمانت کی درخواستوں پر چار ماہ گزرنے کے باوجود پراسیکیوشن نے دلائل نہیں دیے۔
سماعت کے دوران جسٹس طارق سلیم شیخ نے استفسار کیا کہ مقدمات میں قتل اور غیر قانونی ہجوم کے الزامات شامل ہیں، اس پر قانونی نقطہ نظر کیسے لاگو ہوگا؟ اس پر سلمان صفدر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ مقدمات میں نہ کسی چشم دید گواہ نے بانی پی ٹی آئی کا نام لیا، نہ کسی نے یہ کہا کہ انہیں بانی پی ٹی آئی نے بھیجا۔
عدالت نے اسپیشل پراسیکیوٹر سے انسپکٹر عصمت کمال کے 161 کے بیان کے متعلق استفسار کیا، جس پر پراسیکیوٹر نے کہا کہ یہ بیان ”سیکرٹ“ ہے۔ جسٹس شہباز رضوی نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ یہ بیان عدالت میں نہیں پڑھا جا سکتا؟ عدالت کی ہدایت پر بیان پڑھ کر سنایا گیا۔
دوران سماعت بتایا گیا کہ دو اہلکار بھیس بدل کر موقع پر موجود تھے اور ان کے بیانات میں سازش کا ذکر کیا گیا ہے جبکہ بشریٰ بی بی کو بھی اس سازش کا ساتھی قرار دیا گیا، حالانکہ عدالت نے بعد میں انہیں ڈسچارج کر دیا۔
سلمان صفدر نے عدالت کو بتایا کہ ان آٹھ مقدمات میں انسداد دہشتگردی عدالت نے غیر معمولی طور پر طویل جسمانی ریمانڈ منظور کیا، جس کے خلاف ہائیکورٹ میں پٹیشن دائر کی گئی۔
عدالت نے پراسیکیوشن کو ہدایت کی کہ وہ 14 اپریل کو ڈیڑھ بجے تک اپنے دلائل مکمل کریں، جس کے بعد عدالت فیصلہ محفوظ کرے گی۔