جمعرات کے روز سے پاکستانی سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو تیزی سے وائرل ہو رہی ہے، جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ لاہور کے ایک انڈر پاس میں 2 سیاہ رنگ کی ویگو گاڑیاں اور 2 ایس یو ویز فاسٹ لین میں کھڑی ہیں، ان گاڑیوں سے نکلنے والے مسلح گارڈز میں سے ایک قریبی کھڑی سفید گاڑی کے ڈرائیور پر بندوق کے ذریعے حملہ آور ہوتا ہے۔
ویڈیو میں واضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے کہ سکیورٹی گارڈز، جو اپنی یونیفارم کی وجہ سے کسی نجی سکیورٹی کمپنی کے معلوم ہوتے ہیں، گاڑیوں کے اردگرد کھڑے ہیں، ویڈیو کے آغاز میں سفید کار کے سامنے موجود ویگو گاڑی تھوڑا آگے بڑھتی ہے، جس کے ساتھ ہی ایک گارڈ اپنی بندوق سے سفید گاڑی پر فائر کرتا ہے۔
اس کے بعد دیگر گارڈز حملہ آور گارڈ کو پیچھے ہٹانے کی کوشش کرتے ہیں، اسی دوران سفید کار کا ڈرائیور گاڑی سے باہر نکل کر گارڈ کی طرف بڑھتا ہے، جس پر گارڈ اپنی بندوق گھما کر اسے مارنے کی کوشش کرتا ہے۔
اس دوران قافلے میں شامل ایک ویگو اور دو ایس یو ویز آگے بڑھ جاتی ہیں، جبکہ پیچھے رہ جانے والے گارڈز آخری ویگو میں سوار ہو کر فرار ہونے کی کوشش کرتے ہیں، تاہم کار سوار حملہ آور گارڈ کو بھاگنے سے روکنے کی کوشش کرتا ہے۔
پولیس کی کارروائی :
ویڈیو کے وائرل ہونے کے چند گھنٹوں بعد لاہور پولیس نے ایک بیان میں بتایا کہ متاثرہ شہری کی مدعیت میں واقعے کا مقدمہ درج کر لیا گیا ہے، جبکہ چار ملزمان کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ پولیس کے مطابق مزید ملزمان کی گرفتاری کے لیے کارروائی جاری ہے اور نجی سکیورٹی کمپنی کے خلاف بھی قانونی کارروائی کی جا رہی ہے، جبکہ واقعے میں ملوث گاڑیوں کو تحویل میں لے لیا گیا ہے۔
واقعے کی تفصیلات:
لاہور کے ڈی آئی جی آپریشنز فیصل کامران کے مطابق یہ واقعہ جمعرات کی شام 5 بجے مغل پورہ کے قریب بیجنگ انڈر پاس میں پیش آیا، جس کی اطلاع شہریوں نے 15 پر دی، ابتدائی تحقیقات کے مطابق سفید گاڑی کا ڈرائیور قافلے کے درمیان آنے کی کوشش کر رہا تھا، لیکن سکیورٹی گارڈز نے راستہ دینے سے انکار کر دیا، جس پر فریقین میں تلخ کلامی ہوئی اور نجی گارڈز نے شہری کی گاڑی روک کر فائرنگ اور تشدد کیا۔
ڈی آئی جی فیصل کامران کا کہنا تھا کہ واقعے کے بعد ملزمان رش کا فائدہ اٹھا کر ایک گاڑی اور ہتھیار چھوڑ کر فرار ہو گئے، لیکن سیف سٹی کیمروں اور دیگر شواہد کی مدد سے چاروں گاڑیاں، ملوث گارڈز اور سکیورٹی فراہم کرنے والے شخص کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔
View this post on Instagram
نجی سکیورٹی کمپنیوں پر سوالات:
پولیس حکام کے مطابق نجی سکیورٹی کمپنی کے گارڈز تربیت یافتہ نہیں تھے اور نہ ہی ان کی پروفائلنگ کی گئی تھی، جو کہ کمپنی کی ذمہ داری تھی، فیصل کامران نے کہا کہ یہ ایک سڑک پر جھگڑے کا واقعہ تھا، لیکن گارڈ کا رویہ کسی بھی لحاظ سے قابل قبول نہیں تھا۔
انھوں نے کہا کہ نجی سکیورٹی کمپنیاں ملازمین کو بھرتی کرنے سے پہلے ان کی نفسیاتی جانچ نہیں کرتیں اور نہ ہی انہیں ہتھیار چلانے کی مناسب تربیت دی جاتی ہے۔ لاہور پولیس جلد ہی صوبائی وزارت داخلہ کو اس کمپنی کی رجسٹریشن منسوخ کرنے کی سفارش کرے گی۔
متاثرہ شہری کا مؤقف:
متاثرہ شہری محمد عمران نے اپنی ایف آئی آر میں مؤقف اختیار کیا کہ وہ رائیونڈ روڈ سے کنال روڈ کی طرف جا رہے تھے، جب قافلے میں شامل سکیورٹی گارڈز نے ان کا راستہ روکا اور ایک گارڈ نے ان کی گاڑی پر گولی چلا دی، جس سے گاڑی کا ریڈی ایٹر پھٹ گیا۔ ان کے مطابق گارڈ نے انہیں بندوق دکھا کر دھمکایا، تاہم موقع پر موجود عوام کی وجہ سے وہ مزید کارروائی سے باز آ گیا۔
دارالعلوم حقانیہ اور بنوں دھماکوں کے خودکش حملہ آوروں کی شناخت مکمل، آئی جی خیبرپختونخوا
سوشل میڈیا پر ردعمل:
واقعے کی ویڈیو سامنے آنے کے بعد سوشل میڈیا صارفین نے شدید ردعمل کا اظہار کیا۔
وہاج الدین نامی صارف نے لکھا، طاقتور افراد کے لیے ملک جنت بنتا جا رہا ہے، جبکہ عام شہریوں کے لیے زندگی مشکل ہوتی جا رہی ہے۔
شجاع میر نے جائے وقوعہ پر موجود شہریوں کے ردعمل پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا، _”لوگ تماشہ دیکھتے رہے یا پھر آنکھیں بند کر کے گزر گئے۔
شانی نامی صارف نے لکھا، سڑکوں پر بڑے لوگوں کا رویہ عام شہریوں کے لیے ہراساں کرنے والا ہوتا ہے، ہائی بیم لائٹس، بار بار ہارن اور زبردستی راستہ لینے جیسی بدمعاشی عام ہو چکی ہے۔
وی آئی پی کلچر اور سکیورٹی کا مسئلہ:
ڈی آئی جی فیصل کامران نے کہا کہ سوشل میڈیا پر کرائے پر ویگو ڈالے اور مسلح گارڈز حاصل کرنے کے رجحان کو بڑھاوا دیا جا رہا ہے، جس کی روک تھام ضروری ہے۔
انہوں نے اعلان کیا کہ اگلے 15 روز کے اندر لاہور میںڈالا کلچر اور ہتھیاروں کی نمائش کے خلاف آگاہی مہم چلائی جائے گی، تاکہ شہریوں کو غیر ضروری سکیورٹی اور اسلحہ کے استعمال سے روکا جا سکے۔