اسلام آباد ہائیکورٹ نے 4 افغان بھائیوں کے لاپتا ہونے کے کیس میں آئی پنجاب اور آئی جی اسلام آباد کو 16 اپریل کو طلب کرلیا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس محمد آصف نے اسلام آباد سے لاپتا 4 افغان بھائیوں کی بازیابی کی درخواست پر سماعت کرتے ہوئے آئی جی اسلام آباد اور آئی پنجاب کو 16 اپریل کو ذاتی حیثیت میں طلب کر لیا۔
سماعت کے دوران جسٹس آصف نے پولیس حکام سے مکالمے میں کہا کہ یہ اگر آپ کے یا میرے ساتھ ہو تو احساس ہوتا ہے، آپ لوگ آکر کہہ دیتے ہیں ہمیں پتا نہیں لیکن جس کا بندہ لاپتا ہوتا ہے وہ ہر پل زندہ رہتا ہے ہر پل مرتا ہے۔ جس پر گزرتی ہے اسی کو پتا ہوتا ہے۔
جسٹس محمد آصف نے کہا کہ میں بلوچستان تھا وہاں بھی پہلے کہتے تھے ہمارے پاس نہیں مگر پھر وہیں سے برآمد ہوتے تھے، کب تک یہ سلسلہ چلتا رہے گا۔
اس موقع پر وکیل درخواست گزار نے موقف اختیار کیا کہ درخواست گزار کے بیٹے ایک سال سے زائد عرصے سے لاپتا ہیں۔ انہیں تو یہ بھی نہیں بتایا گیا کہ وہ کونسی ایسی ریاست مخالف سرگرمی میں ملوث ہیں۔
درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ جو لوگ فوٹیج میں نظر آرہے ہیں ان کو شامل تفتیش کیوں نہیں کیا جا رہا۔ نامزد افراد سے پوچھا جائے کہ آپ فوٹیج میں نظر آرہے ہیں۔ آپ کیوں وہاں گئے تھے۔
وکیل درخواست گزار نے سیکرٹریز دفاع و داخلہ کو ذاتی حیثیت میں طلب کرنے کی استدعا کی جس پر عدالت نے کہا کہ پہلے آئی جیز کو بلا لیتے ہیں ان کو سن کر پھر دیگر فریقین کو بلا لیں گے۔ عدالت نے آئی جیز اسلام آباد اور پنجاب کو طلب کرتے ہوئے سماعت 16 اپریل تک ملتوی کردی۔