غزہ میں اسرائیلی افواج کی کارروائیوں کے دوران شہید ہونے والے معصوم فلسطینی بچوں سے متعلق ایک لرزہ خیز انکشاف سامنے آیا ہے۔
بی بی سی کی تازہ تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق 2023 میں اسرائیلی فوج کے آپریشنز کے دوران بڑی تعداد میں بچوں کو جان بوجھ کر سر یا سینے میں گولیاں مار کر قتل کیا گیا۔
رپورٹ میں نومبر 2023 میں پیش آنے والے دو افسوسناک واقعات کا حوالہ دیا گیا ہے، جن میں دو سالہ لیان المجدلاوی اور چھ سالہ میرا طنبوہ کو گولی مار کر شہید کیا گیا۔ یہ واقعات ان علاقوں میں پیش آئے جہاں اسرائیلی ڈیفنس فورسز سرگرم تھیں۔
تحقیق میں مجموعی طور پر 160 سے زائد بچوں کے کیسز کا تجزیہ کیا گیا، جن میں 95 بچوں کو نشانہ سر یا سینے پر بنایا گیا۔ ان میں سے 59 واقعات میں عینی شاہدین، انسانی حقوق کی تنظیموں اور طبی عملے نے گواہیاں فراہم کیں۔ ان گواہیوں کے مطابق 57 بچوں کو اسرائیلی فوج نے نشانہ بنایا، جبکہ دو بچے فلسطینیوں کی فائرنگ کا شکار بنے۔ بیشتر شہید بچوں کی عمریں بارہ برس سے کم تھیں، اور ان کے لواحقین کا کہنا ہے کہ وہ نہتے تھے، کھیل رہے تھے یا حملوں سے بچنے کے لیے بھاگ رہے تھے۔
رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اسرائیلی حکومت نے غیر ملکی صحافیوں پر غزہ میں آزادانہ رپورٹنگ پر پابندیاں عائد کر رکھی ہیں، جس کی وجہ سے کئی واقعات کی تفصیلات تک رسائی ممکن نہیں ہو سکی۔ اس انکشاف کے بعد عالمی انسانی حقوق کی تنظیموں نے ان کارروائیوں کو ممکنہ جنگی جرائم قرار دیا ہے اور فوری بین الاقوامی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔
بین الاقوامی ریڈ کراس کمیٹی نے بھی رپورٹ پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ دنیا کو ایسے جنگی طرزِ عمل کو معمول تسلیم نہیں کرنا چاہیے، جس میں معصوم بچوں کو بھی بیدردی سے نشانہ بنایا جا رہا ہو۔ غزہ میں جاری اس انسانی بحران نے ایک بار پھر عالمی ضمیر کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے، مگر سوال یہ ہے کہ عالمی برادری اس کے خلاف کب بیدار ہوگی؟