اسلام آباد کی انسداد دہشت گردی عدالت کے جج طاہر سپرا نے کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے کہ اس وقت سرکاری ادارے دیگر قوتوں کے زیر اثر ہیں۔
انسداد دہشت گردی عدالت میں پی ٹی آئی کے ایم پی اے علی شاہ کی درخواست ضمانت پر سماعت ہوئی، جس میں کیس کے پراسیکیوٹر اور دیگر متعلقہ حکام پیش ہوئے۔
دوران سماعت جج طاہر سپرا نے استفسار کیا کہ آیا پولیس آج بھی ریکارڈ پیش نہیں کرے گی؟ جس پر پراسیکیوٹر نے وضاحت دی کہ تفتیشی افسر منڈی بہاؤالدین میں موجود ہے اور تاحال واپس نہیں آیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ عدالت کو اس معاملے پر کارروائی کرنی چاہیے کیونکہ عدالت کے پاس اختیار ہونے کے باوجود پولیس ریکارڈ فراہم نہیں کر رہی۔
جج نے پراسیکیوشن کے کردار پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ وہ اب تک یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ پراسیکیوشن کی اصل ذمہ داری کیا ہے؟ انہوں نے مزید کہا کہ مقدمے کا چالان عدالت میں پیش کرنا پراسیکیوشن کی ذمہ داری ہے، جس پر پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ جب تک چالان انہیں موصول نہیں ہوتا، وہ اس کے ذمہ دار نہیں۔
عدالت نے سوال اٹھایا کہ اگر تفتیشی افسر پیش نہیں ہو رہا تو یہ کس کی ذمہ داری بنتی ہے؟ جج نے ریمارکس دیے کہ اسلام آباد کے پراسیکیوٹرز اپنی ضد پر قائم رہتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ وہ ججز کے مساوی ہیں، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اگر عدالت پولیس کو نوٹس جاری کر سکتی ہے تو پراسیکیوشن کو بھی کیا جا سکتا ہے۔
جج طاہر سپرا نے مزید کہا کہ ملک اس وقت غیر معمولی حالات سے گزر رہا ہے اور تمام ادارے کسی اور کے کنٹرول میں نظر آ رہے ہیں۔ انہوں نے ہدایت دی کہ ریکارڈ کل صبح تک فراہم کر دیا جائے۔
عدالت نے یہ بھی کہا کہ سرکاری اہلکاروں کو ان کی تنخواہ اس لیے دی جاتی ہے تاکہ وہ معاشرے میں انصاف کے قیام کو یقینی بنائیں،بعد ازاں، عدالت نے کیس کی سماعت کل تک ملتوی کر دی۔