بلوچستان میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی کے تناظر میں صوبائی حکومت نے مذاکرات کو ممکنہ حل قرار دیتے ہوئے اپوزیشن کو بھی اس عمل میں شامل کرنے کی پیشکش کی ہے۔
کوئٹہ میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے بلوچستان حکومت کے ترجمان شاہد رند نے کہا کہ وزیراعلیٰ نے حزب اختلاف کو مذاکرات کے ذریعے معاملات حل کرنے کی دعوت دی ہے۔ ان کے ساتھ صوبائی وزرا میر شعیب نوشیروانی اور ظہور احمد بلیدی بھی موجود تھے۔
صوبائی وزیر شعیب نوشیروانی نے بلوچستان میں حالیہ دہشت گردی کی لہر کو تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ یہ غیر روایتی واقعات ہیں، جن سے نمٹنے کے لیے نئی حکمت عملی اپنانا ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ انٹیلی جنس معلومات، عوامی حمایت اور اتفاق رائے کے ذریعے صوبے میں امن قائم کیا جا سکتا ہے۔
بلوچستان میں دہشت گردی کے حالیہ واقعات
صوبائی وزیر ظہور بلیدی نے کہا کہ بلوچستان میں حالیہ دہشت گرد حملوں میں معصوم شہریوں کو نشانہ بنایا گیا، جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ انہوں نے مزید کہا:
- جعفر ایکسپریس حملے میں معصوم مسافروں کو یرغمال بنایا گیا، جس پر پوری دنیا نے مذمت کی۔
- گوادر میں بس حملے میں بے گناہ شہریوں کو اتار کر شہید کیا گیا۔
- بلوچستان میں کینسر کے واحد معالج، ڈاکٹر مہر اللّٰہ ترین کو ایک بم دھماکے میں شہید کیا گیا۔
حکومت کا مذاکرات کا عندیہ
شعیب نوشیروانی نے کہا کہ بلوچستان میں محرومیاں اور گورننس کے مسائل پر حکومت سنجیدگی سے کام کر رہی ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ تشدد یا آپریشن سے مسائل کا حل ممکن نہیں، مذاکرات کے ذریعے ہی امن کا راستہ نکالا جا سکتا ہے۔
بلوچستان حکومت کے ترجمان شاہد رند نے کہا کہ وزیراعلیٰ نے کئی بار اسمبلی کے فلور پر کہا کہ اگر اپوزیشن کے کسی رکن کو مذاکرات میں کردار ادا کرنا ہے تو حکومت انہیں مینڈیٹ دینے کو تیار ہے۔
بلوچستان میں امن و امان کی صورتحال پر حکومت کی مذاکرات کی پیشکش ایک نیا موڑ ثابت ہو سکتی ہے، تاہم اپوزیشن اور دیگر اسٹیک ہولڈرز کا اس پر ردعمل کیا ہوگا، یہ دیکھنا باقی ہے۔