سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے فیصلے کیخلاف انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت ہوئی۔
سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کے ٹرائل کے فیصلے کے خلاف دائر انٹرا کورٹ اپیل کی سماعت ہوئی۔ جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7 رکنی آئینی بینچ نے اس کیس کی سماعت کی، جس میں وزارتِ دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل پیش کیے۔
خواجہ حارث نے اپنے دلائل میں کہا کہ جرم کی نوعیت پر منحصر ہوتا ہے کہ کیس کا ٹرائل کہاں ہونا چاہیے۔ اگر کسی عام شہری کے جرم کا تعلق مسلح افواج سے ہو، تو اس کا ٹرائل فوجی عدالت میں ہو گا۔ اس پر جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ عدالت جرم کرنے والے کی نیت اور مقصد کا بھی جائزہ لے سکتی ہے۔ خواجہ حارث نے وضاحت کی کہ یہ سوال شواہد سے متعلق ہے، اور سپریم کورٹ براہ راست شواہد کا جائزہ نہیں لے سکتی۔
دوران سماعت، جسٹس جمال خان مندوخیل نے سانحہ آرمی پبلک اسکول کے حوالے سے استفسار کیا کہ کیا اس وقت دہشت گرد گروپوں کے درمیان گٹھ جوڑ موجود تھا؟ خواجہ حارث نے اس بات کی تصدیق کی اور کہا کہ سانحہ اے پی ایس کے وقت آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ بھی موجود تھے۔
مزید استفسار پر جسٹس جمال نے پوچھا کہ اگر آرمی ایکٹ موجود تھا تو پھر اس واقعے کے ٹرائل کے لیے آئینی ترمیم کیوں کی گئی؟ خواجہ حارث نے جواب دیا کہ ترمیم کے ذریعے آرمی ایکٹ میں دیگر جرائم کو بھی شامل کیا گیا تھا، جو ڈسپلن اور فرائض کی انجام دہی سے متعلق نہیں تھے۔
سماعت کے دوران مزید سوالات کے جواب میں وکیل نے کہا کہ آرمی ایکٹ کے تحت مذہب یا دہشت گرد گروپ کے نام پر کی گئی دہشت گرد کارروائیوں کا ٹرائل فوجی عدالت میں ہوتا ہے۔
عدالت نے وکیل خواجہ حارث کے دلائل مکمل ہونے کے بعد کیس کی سماعت کل تک کے لیے ملتوی کر دی۔