اداکارہ حمیرا اصغر کی تنہائی میں موت، سوشل میڈیا کی چاندنی میں چھپی خاموشی کا نوحہ

تازہ ترین خبروں اور تبصروں کیلئے ہمارا وٹس ایپ چینل جوائن کریں

معاشرتی بے حسی، خاندانی لاتعلقی اور ذہنی بیماریوں نے ایک اور زندگی نگل لی، ماہرین کا گہرا تجزیہ

کراچی: سوشل میڈیا پر لاکھوں فالوورز رکھنے والی اداکارہ و ماڈل حمیرا اصغر علی کی تنہائی میں ہوئی المناک موت نے پورے معاشرے کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ شہرت کے باوجود خاموشی سے زندگی کا اختتام اس امر کی علامت ہے کہ ہماری سوسائٹی میں جذباتی تنہائی، خاندانی بگاڑ اور سماجی لاتعلقی کس قدر گہرائی تک سرایت کر چکی ہے۔

latest urdu news

اس افسوسناک واقعے پر گفتگو کرتے ہوئے ماہرِ نفسیات فرحان ظفر نے کہا کہ یہ صرف ایک فرد کی موت نہیں، بلکہ پورے معاشرتی و خاندانی نظام پر ایک سوالیہ نشان ہے۔ انہوں نے اپنی دس سالہ تحقیق کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ نوجوانوں میں پنپنے والے بغاوت آمیز رویے اور ذہنی بیماریوں کی جڑیں خاندانی عدم توازن، جذباتی بے رخی اور تعلقات کی سطحی نوعیت میں پائی گئی ہیں۔ ان کے بقول:
"جب ایک نوجوان کو گھر میں قبولیت، تحفظ اور سنے جانے کا احساس نہ ملے تو وہ لاکھوں فالوورز کے درمیان بھی تنہا رہتا ہے۔”

فرحان ظفر نے مزید کہا کہ بعض افراد شہرت اور کامیابی سے اپنے اندر کے خالی پن کو پُر کرنے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن جب یہی کامیابی ذہنی دباؤ، گمنامی یا لاچاری کی قیمت پر حاصل ہو تو ذہن رفتہ رفتہ زوال کی طرف بڑھنے لگتا ہے۔ ان کے مطابق، ریاست، میڈیا اور فیملیز کو مل کر ایسا ماحول تخلیق کرنا ہوگا جہاں تربیت، احساس، مکالمہ اور سننے کا کلچر زندہ ہو۔

حمیرا اصغر کیس میں بڑی پیشرفت: موبائل ڈیٹا اور بیانات نے کئی راز کھول دیے

دوسری جانب، "فار ایور” ریسرچ ادارے کے ڈائریکٹر محمد اسعد الدین نے حمیرا اصغر کی موت کو سماجی نظام کی شکست کا نتیجہ قرار دیا۔ ان کے مطابق، گزشتہ دو دہائیوں میں کراچی جیسے بڑے شہروں میں خلع اور طلاق کی شرح میں ہوشربا اضافہ ہوا ہے، جس کے باعث سماجی خلا اور جذباتی ٹوٹ پھوٹ عام ہو چکی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ فروری 2025 تک صرف کراچی میں 11,000 سے زائد طلاق و خلع کے مقدمات دائر ہو چکے ہیں، جس کے نتیجے میں اجنبیت، لاتعلقی اور تنہائی جیسے مہلک مگر خاموش امراض سوسائٹی میں پھیل چکے ہیں۔ ان کے مطابق، پڑوس، رشتہ داری اور قریبی تعلقات کا نظام زوال کا شکار ہے، اور انسان سوشل میڈیا کے ذریعے جذباتی سہارے ڈھونڈنے کی کوشش کر رہا ہے — لیکن مشینیں انسانی جذبات کی جگہ کبھی نہیں لے سکتیں۔

ریسرچ ڈائریکٹر کا کہنا تھا کہ حمیرا کی زندگی اور موت سوسائٹی کی اس گہری بیماری کی علامت ہے، جہاں خونی رشتے، قریبی دوست اور ساتھ کام کرنے والے لوگ بھی برسوں لاتعلق رہتے ہیں۔ ایسے میں ضروری ہے کہ باشعور افراد، ادارے اور طبقات اب خاموش تماشائی نہ بنیں بلکہ معاشرتی بہتری کے لیے عملی اقدامات کریں۔

یاد رہے کہ اداکارہ حمیرا اصغر کی لاش ان کے کراچی کے فلیٹ سے اس حالت میں ملی کہ موت کو تقریباً 10 ماہ گزر چکے تھے، اور کوئی ان کی خبر لینے والا نہ تھا۔ یہ واقعہ صرف ایک فرد کی کہانی نہیں، بلکہ پورے معاشرتی ضمیر پر ایک طمانچہ ہے۔

شیئر کریں:

ہمیں فالو کریں

frontpage hit counter