بھارت کی ریاست ہماچل پردیش کی ہائی کورٹ نے اپنے ایک اہم فیصلے میں کہا ہے کہ صرف "پاکستان زندہ باد” کہنا بغاوت کے زمرے میں نہیں آتا، جب تک اس میں بھارت مخالف جذبات یا علیحدگی پسندی کو ہوا نہ دی جائے۔
یہ فیصلہ جسٹس راکیش کینتھلا نے ایک مقدمے کی سماعت کے دوران سنایا، جس میں ایک شخص پر وزیراعظم نریندر مودی کی اے آئی سے تیار کردہ تصویر کے ساتھ "پاکستان زندہ باد” کے الفاظ سوشل میڈیا پر شیئر کرنے کا الزام تھا۔
عدالت کی اہم آبزرویشنز
"اگر کوئی شخص کسی دوسرے ملک کی تعریف کرتا ہے لیکن اپنی مادرِ وطن کی توہین نہیں کرتا، تو یہ اقدام بغاوت کے دائرے میں نہیں آتا۔ اس سے نہ تو مسلح بغاوت کو ہوا ملتی ہے، نہ ہی تخریبی یا علیحدگی پسند کارروائیوں کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔”
عدالت نے کہا کہ محض کسی فقرے یا نعرے کی بنیاد پر بغاوت کا مقدمہ نہیں بنایا جا سکتا، جب تک کہ اس میں ملک کے خلاف واضح نفرت یا اشتعال انگیزی نہ ہو۔
کیس کی تفصیل
ملزم سلیمان، جو ایک ان پڑھ ریڑھی بان ہے اور گزشتہ 24 برس سے پاؤنٹا صاحب میں مقیم ہے، پر الزام تھا کہ اس نے وزیراعظم مودی کی ایک تصویر کے ساتھ "پاکستان زندہ باد” کے الفاظ فیس بک پر شیئر کیے۔ تاہم، ملزم کا مؤقف تھا کہ وہ خود سوشل میڈیا کا استعمال نہیں جانتا اور اس کا فیس بک اکاؤنٹ اس کے بیٹے نے بنایا تھا۔ مزید یہ کہ تصویر دراصل ایک مخالف فریق نے جان بوجھ کر اس کے موبائل سے شیئر کی، جس کے ساتھ اس کا مالی تنازع بھی تھا۔
عدالت کا فیصلہ
عدالت نے یہ مؤقف تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ ملزم کے خلاف شواہد ناکافی ہیں۔
پولیس نے اس کا موبائل فون ضبط کر کے فرانزک معائنے کے لیے بھیج دیا ہے۔
مزید حراستی تفتیش کی ضرورت نہیں۔
چارج شیٹ داخل ہو چکی ہے، اس لیے سلیمان کو ضمانت دی جا رہی ہے۔
ریاستی پراسیکیوشن نے عدالت میں دلیل دی کہ "پاکستان زندہ باد” کہنا حساس موقع پر ملک دشمنی کے مترادف ہے، کیونکہ اس وقت بھارت اور پاکستان کے تعلقات کشیدہ تھے۔ تاہم، عدالت نے اس مؤقف کو مسترد کرتے ہوئے واضح کیا کہ صرف اس بنیاد پر کسی فرد کو جرم سے جوڑنا مناسب نہیں۔