یوکرینی حکام نے دعویٰ کیا ہے کہ روس نے جمعرات کی رات یوکرین پر ایک شدید فضائی حملہ کیا، جس میں 574 ڈرون اور 40 میزائل داغے گئے۔ یہ حملہ جولائی کے بعد کا سب سے بڑا اور منظم فضائی حملہ قرار دیا جا رہا ہے، جس کے نتیجے میں کم از کم ایک شہری ہلاک اور 15 افراد زخمی ہو گئے۔
برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق روس کی جانب سے مجموعی طور پر 614 ڈرونز اور میزائل فائر کیے گئے جن میں سے یوکرینی فضائی دفاع نے 577 کو مار گرانے کا دعویٰ کیا ہے۔ حملے میں مختلف شہروں کو نشانہ بنایا گیا، جن میں صنعتی تنصیبات، بجلی گھروں اور شہری آبادیوں کے نزدیک مقامات شامل تھے۔
یہ حملے ایسے وقت میں ہوئے ہیں جب امریکہ کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ یوکرین جنگ کے خاتمے کے لیے سفارتی کوششوں کی قیادت کر رہے ہیں۔ ٹرمپ نے حال ہی میں روسی صدر ولادیمیر پیوٹن سے الاسکا میں ایک ملاقات کی تھی، جبکہ یوکرینی صدر ولودیمیر زیلنسکی اور یورپی رہنماؤں سے بھی وائٹ ہاؤس میں مشاورت کی ہے۔
روس نے یوکرین میں نیٹو امن فوج کی تعیناتی کی تجویز مسترد کر دی
صدر ٹرمپ کا کہنا ہے کہ وہ فریقین کے درمیان براہِ راست مذاکرات کی راہ ہموار کر رہے ہیں، اور اگر ضروری ہوا تو وہ خود بھی ان مذاکرات میں شامل ہوں گے۔ ان کے بقول، بات چیت کے لیے سوئٹزرلینڈ یا آسٹریا جیسے غیر جانبدار یورپی ملک کا انتخاب کیا جا سکتا ہے۔
یوکرینی صدر زیلنسکی نے بھی عندیہ دیا ہے کہ وہ پیوٹن سے کسی نیوٹرل ملک میں ملاقات کے لیے تیار ہیں، تاہم انہوں نے اس بات پر زور دیا ہے کہ مذاکرات کی بنیاد یوکرین کی خودمختاری اور سرحدی سالمیت کا احترام ہونا چاہیے۔
روس نے یوکرین میں نیٹو امن فوج کی تعیناتی کی تجویز مسترد کر دی
یاد رہے کہ روس نے فروری 2022 میں یوکرین پر وسیع پیمانے پر حملہ کیا تھا اور تاحال یوکرین کے تقریباً پانچویں حصے پر قابض ہے، جس میں ڈونباس ریجن اور جزیرہ نما کریمیا شامل ہیں۔ جنگ تیسرے سال میں داخل ہو چکی ہے اور اب تک لاکھوں افراد متاثر ہو چکے ہیں جبکہ امن کی کوئی واضح صورت فی الحال نظر نہیں آ رہی۔