نیٹ فلکس کی سیریز ایڈولیسنس نے ایک ایسی بحث کو جنم دیا جو اب دنیا کے کئی معاشروں میں گونج رہی ہے—یہ بحث ہے مردوں کی تربیت اور ان پر پڑنے والے سماجی، نفسیاتی اور آن لائن اثرات کی۔
کہانی ایک تیرہ سالہ لڑکے جیمی ملر کی ہے جو اپنی کلاس فیلو کیٹی کا قاتل نکلتا ہے۔ دیکھنے والوں کے ذہن میں سوال ابھرتا ہے: ایک نارمل گھریلو بچہ قاتل کیسے بن جاتا ہے؟
تفتیش کے دوران معلوم ہوتا ہے کہ بلوغت، مردانگی کے روایتی تصورات، سوشل میڈیا، آن لائن ہراسانی اور انسیل کلچر جیسے موضوعات بچے کی سوچ پر گہرے اثرات ڈال رہے تھے۔
یہی سیریز دیکھنے کے بعد کئی والدین کو احساس ہوا کہ ان کے بچے ان سے نہیں بلکہ ان دیکھے ڈیجیٹل اثرات سے متاثر ہو رہے ہیں۔
یہ صرف مغرب کا مسئلہ نہیں۔ پاکستان میں حالیہ ڈرامہ راہ جنون دیکھیں، تو ایک مرکزی کردار—ہیرو—محبت میں انکار پر کہتا ہے:
"مہر صرف میری ہے، اگر اسے پانے کے لیے کسی کو مارنا بھی پڑا تو میں ایک سیکنڈ نہیں سوچوں گا۔”
ایسا ڈائیلاگ ادا کرنے والا کوئی ولن نہیں، بلکہ "ہیرو” ہے۔ جب ٹی وی اس طرح کے زہریلے رویوں کو رومانس کے طور پر پیش کرے گا تو نوجوان لڑکوں کے لیے یہ رویہ "نارمل” بنتا چلا جائے گا۔
یہی سوچ ہمیں چند دن پہلے اسلام آباد میں 17 سالہ ٹک ٹاکر ثنا یوسف کے قتل میں دکھائی دی۔ ایک لڑکا جو بار بار انکار سن چکا تھا، اس نے ثنا کو اس کے گھر میں گھس کر قتل کر دیا۔
یہ واقعہ انسیل کلچر سے جڑا ہے—ایک آن لائن دنیا جس میں نوجوان لڑکے یہ یقین کرنے لگے ہیں کہ اگر عورت ان کی خواہش پوری نہیں کرتی تو وہ "ذمہ دار” ہے، اور سزا کی مستحق بھی۔
یہی نہیں، پاکستان جیسے معاشرے میں انکار پر مردوں کے ردعمل کی لمبی تاریخ ہے۔ ایسڈ سروائیورز فاؤنڈیشن کے مطابق، پاکستان میں ہر سال اوسطاً 200 سے زیادہ تیزاب پھینکنے کے واقعات ہوتے ہیں، جن میں 80 فیصد میں خواتین کو اس لیے نشانہ بنایا جاتا ہے کہ وہ کسی مرد کی محبت یا خواہش کو مسترد کر چکی ہوتی ہیں۔
ثنا یوسف کے قتل کے بعد سوشل میڈیا پر ایک بار پھر متاثرہ کو ہی مورد الزام ٹھہرانے کا رجحان دیکھا گیا—کیونکہ وہ ایک ٹک ٹاکر تھی، اس لیے کچھ کے خیال میں وہ "قصوروار” تھی۔
کراچی سے تعلق رکھنے والے کانٹینٹ کریئیٹر بلال حسن نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا:
"جب بھی میں خواتین کے حقوق پر کوئی پوسٹ کرتا ہوں، سب سے زیادہ نفرت 14-15 سال کے لڑکوں سے ملتی ہے جو اینڈریو ٹیٹ کو فالو کرتے ہیں۔”
اینڈریو ٹیٹ ایک متنازع انفلوئنسر ہیں، جو خواتین مخالف بیانات اور جرائم میں ملوث ہونے کے الزامات کے باوجود لاکھوں نوجوانوں کو متاثر کر رہے ہیں—پاکستان بھی ان سے محفوظ نہیں۔
پاکستانی ڈرامے بھی اس زہریلے کلچر کا حصہ ہیں۔ من مست قلندر میں ’ہیرو‘ اپنی بیوی کو رات کو باندھ کر رکھتا ہے تاکہ وہ بھاگ نہ جائے—مگر وہ ولن نہیں۔ کیسی تیری خود غرضی میں ’ہیرو‘ دھونس، دھمکی سے لڑکی سے شادی کر لیتا ہے، اور پھر اسے رومانوی انداز میں دکھایا جاتا ہے۔
بلال حسن کہتے ہیں کہ ہمارے ڈرامے ’نہیں‘ کے مطلب کو سکھانے کے بجائے بار بار کہنے، پیچھے پڑنے اور ضد سے ماننے کو نارمل بنا رہے ہیں۔ رضامندی کا کوئی تصور دکھایا ہی نہیں جاتا۔
ڈرامہ نگار علی معین کہتے ہیں کہ اداکاروں اور لکھنے والوں کو سوچنا ہوگا کہ وہ اپنے کرداروں کے ذریعے کس طرح کے پیغامات دے رہے ہیں، اور یہ کہ رومانوی شدت پسندی اور مجرمانہ ذہنیت کے درمیان لکیر بہت باریک ہوتی ہے۔
ثنا یوسف کا قاتل تو گرفتار ہو چکا ہے، مگر اصل ضرورت ان نظریات کا خاتمہ ہے جو ہر انکار پر مرد کو غصہ، انتقام اور تشدد کی طرف لے جاتے ہیں۔
جب تک سوشل میڈیا پر خواتین کے خلاف نفرت پھیلانے والے گروہ کھلے عام موجود ہیں، جب تک ڈراموں کا ہیرو ’نو مین نو‘ نہیں سیکھتا، اور جب تک ہم مردوں کی جذباتی تربیت کو اہم نہیں سمجھتے، تب تک ایک اور ثنا یوسف پھر سے قربانی بن سکتی ہے۔