ایک بے رنگ، بے بو گیس کاربن ڈائی آکسائیڈ (CO₂) اب انسانیت کے مستقبل پر سایہ بن چکی ہے۔ حالیہ سائنسی رپورٹوں کے مطابق، زمین کی فضا میں CO₂ کی مقدار 410 پارٹس پر ملین سے تجاوز کر چکی ہے، جو کہ گزشتہ آٹھ لاکھ سالوں میں بلند ترین سطح ہے۔ یہ اعدادوشمار محض ماحولیاتی خطرہ نہیں، بلکہ ایک وجودی بحران کا پیش خیمہ ہیں۔
زمین کا درجہ حرارت خطرے کے نشان کے قریب
صنعتی انقلاب کے بعد سے آج تک زمین کا اوسط درجہ حرارت 1.2 ڈگری سینٹی گریڈ بڑھ چکا ہے۔ سائنسدان خبردار کر چکے ہیں، اگر یہ اضافہ 2 ڈگری تک پہنچا، تو دنیا کے موسمی، زرعی، اور جغرافیائی توازن میں ناقابلِ واپسی بگاڑ آ جائے گا۔ اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ اگلے 20 سالوں میں یہ خطرناک حد عبور ہو سکتی ہے۔ مگر کیا ہم تیار ہیں؟
موسم کی بگڑتی ہوئی صورت حال
ایک ایسی دنیا ہماری منتظر ہے جہاں موسم بے قابو، طوفان معمول اور قحط ناگزیر بن جائے گا۔ وہ مقامات جہاں آج سبزہ ہے، کل کو وہاں خاک اڑتی نظر آئے گی۔ سیلاب، گرمی کی لہریں، جنگلات کی آگ اور خشک سالی صرف ایک خطے کا مسئلہ نہیں رہیں گے یہ عالمی انسانی بحران بن جائیں گے۔
جب ماحولیاتی تحفظ، سیاست کا ہتھیار بن جائے
جہاں ماحولیاتی تبدیلی سچ ہے، وہیں اس کا سیاسی استعمال بھی ایک خطرہ بنتا جا رہا ہے۔ ترقی یافتہ دنیا، جن کے کارخانے دہائیوں سے زہر اگل رہے ہیں، اب خود کو "ماحولیاتی محافظ” کہلوا کر باقی دنیا پر انگلیاں اٹھا رہی ہے۔ یہ خطرہ موجود ہے کہ ماحولیات کو ایک سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جائے گا معاشی پابندیاں، سفارتی دباؤ، اور شاید عسکری کارروائیوں کا نیا جواز
مسلم دنیا کے لیے ایک اور چیلنج
جیسے پہلے "دہشت گردی”، "خواتین کے حقوق”، یا "انسانی آزادی” جیسے نعرے مسلم دنیا کے خلاف چالاکی سے استعمال کیے گئے، اب ماحولیات بھی ایک نیا بہانہ بن سکتی ہے۔ غزہ کی چیخیں دب جاتی ہیں، ایران پر حملوں کی باتیں سامنے آ جاتی ہیں۔ ایجنڈے تبدیل ہوتے ہیں، اور مظلومیت پس منظر میں چلی جاتی ہے۔ ماحولیاتی بحران کے نام پر بھی ایسی ہی غیر مرئی سفارتی چالیں چلنے کا خدشہ موجود ہے۔
راستہ کیا ہے؟ اتحاد، خلوص اور عالمی انصاف
اب وقت ہے کہ دنیا ماحولیات کو صرف سائنسی مسئلہ نہیں، بلکہ انسانی، سیاسی اور اخلاقی چیلنج کے طور پر دیکھے۔ امریکا، چین اور دیگر بڑی طاقتوں کو چاہیے کہ وہ قیادت کریں — مگر استحصال کے بغیر، اخلاص کے ساتھ۔ اسلامی دنیا اور ترقی پذیر ممالک کو بھی محض متاثرین نہیں، بلکہ فعال کردار ادا کرنے والا فریق بننا ہوگا۔ انہیں اپنی بقاء کے لیے ماحولیاتی تحفظ، سیاسی شعور، اور سفارتی حکمت عملی کو بیک وقت اپنانا ہوگا۔
ہم بدلیں گے یا صرف تماشائی رہیں گے؟
ماحولیاتی بحران اس صدی کا سب سے بڑا چیلنج ہے لیکن یہ بھی سچ ہے کہ یہی بحران عالمی ضمیر کے امتحان کا میدان بن چکا ہے۔ ہمیں فیصلہ کرنا ہے: کیا ہم صرف آسمان جلتے دیکھیں گے؟ یا زمین کو بچانے کے لیے خود کو بدلیں گے؟