’’عیدالفطر‘‘ کے تصور سے ذہن میں رنگا رنگ ملبوسات، نئے جوتے، چاند رات، مہندی، چوڑیاں، مٹھائیوں کے سجے سنورے ڈبّے، ٹوکرے، عیدی اور شیر خرما آ جاتے ہیں، تو عیدالاضحیٰ اور گوشت لازم و ملزوم ہیں۔ بقرعید پر دنیا بھر کے مسلمان سنتِ ابراہیمیؑ پر عمل کرتے ہوئے لاکھوں جانور اللہ کی راہ میں قربان کرتے ہیں۔ اس موقع پر اربوں ٹن گوشت اکٹھا ہوتا ہے، جو مستحق افراد اور رشتے داروں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔
اس وقت دنیا میں مسلمانوں کی آبادی تقریباً 2 ارب ہے اور ان میں صاحبِ حیثیت افراد کی تعداد، یعنی جن پر قربانی فرض ہے، کروڑوں میں ہے۔ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے، تو یہاں گزشتہ سال 60 سے 70 لاکھ جانور قربان کیے گئے، جن میں گائیں، بکرے، چھترے، بھینسیں، بھیڑیں، دنبے اور اونٹ شامل تھے۔ ان کی مالیت کا اندازہ تقریباً 500 ارب روپے لگایا گیا ہے۔
پاکستان میں تقریباً ہر صاحبِ حیثیت شخص قربانی کرتا ہے، جس کے نتیجے میں منوں گوشت اکٹھا ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں چھوٹا گوشت (Mutton) ہو یا بڑا گوشت (Beef)، منہگے داموں دستیاب ہے اور ان کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
پھر یہ کہ پاکستان میں لاکھوں افراد خطِ غربت سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں، جن کے لیے گوشت تو تقریباً "شجرِ ممنوعہ” بن چکا ہے، جب کہ متوسط طبقے کے دسترخوانوں پر بھی مٹن کم کم ہی نظر آتا ہے۔ چکن کو ترجیح دی جاتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ جہاں ترقی یافتہ ممالک میں فی کس گوشت کی سالانہ کھپت 93 کلوگرام ہے، وہیں پاکستان میں یہ مقدار صرف 30 کلوگرام ہے۔ ہماری لیبر فورس میں شامل 30 سے 35 ملین افراد مویشی پالتے ہیں، لیکن حکومت کی ناقص منصوبہ بندی کی وجہ سے جانور مہنگے ہوتے جا رہے ہیں۔
ایسے میں عیدالاضحیٰ کا موقع ایک نایاب موقع ہوتا ہے جب عام افراد کو بھی وافر مقدار میں گوشت میسر آتا ہے۔ صاحبِ حیثیت افراد جھگیوں، کچی آبادیوں اور دیگر علاقوں میں خود گوشت پہنچاتے ہیں، کئی رفاہی ادارے بھی اس عمل میں شامل ہوتے ہیں۔
کئی خاندان گوشت سکھا کر پورا سال استعمال کرتے ہیں۔ گھروں میں فریج اور ڈیپ فریزرز گوشت سے بھر جاتے ہیں اور نت نئے پکوان آزمائے جاتے ہیں۔ خواتین کی گفتگو کا مرکز بھی انہی ڈشز پر ہوتا ہے۔
قربانی کے فوراً بعد کلیجی سے آغاز ہوتا ہے، جو کباب، نہاری، سری پائے، باربی کیو تک چلتا ہے۔
اعتدال کا دامن
اکثر افراد گوشت کا بے دریغ استعمال کرتے ہیں، جس سے طبی مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز کے ماہرین کے مطابق، گوشت کے استعمال میں بے احتیاطی کے سبب کئی لوگ اسپتالوں کا رخ کرتے ہیں۔
گوشت بلاشبہ پروٹین، آئرن، وٹامن بی اور زنک کا خزانہ ہے، لیکن ضرورت سے زیادہ استعمال نقصان دہ ہے۔ دن میں 100 گرام سے زیادہ گوشت نہ کھایا جائے۔
اکثر لوگ گوشت کے ساتھ سلاد، سبزی یا روٹی استعمال نہیں کرتے، صرف گوشت ہی کھاتے رہتے ہیں، جس سے قبض اور بدہضمی ہو جاتی ہے۔ چربی کا آئل کے طور پر استعمال بھی مضر صحت ہے۔
ماہرین مشورہ دیتے ہیں کہ گوشت کے ساتھ دہی، رائتہ، پھل اور ویجیٹیبل آئل کا استعمال کیا جائے۔ کولا مشروبات کھانا ہضم نہیں کرتے، بلکہ گیس، اپھارہ اور یورک ایسڈ بڑھاتے ہیں۔
فوائد و نقصانات
ڈاکٹر مختار احمد کے مطابق، گوشت پروٹین، آئرن، وٹامن بی، زنک، سیلینیم کا بہترین ذریعہ ہے۔ یہ خون کی کمی، اعصابی نظام اور مسلسل وزن کنٹرول میں مفید ہے۔
تاہم، زیادہ استعمال کولیسٹرول، دل کی بیماریوں، بڑی آنت کے کینسر اور شوگر کا سبب بن سکتا ہے۔ Gout کا تعلق بھی زیادہ گوشت سے جوڑا گیا ہے۔
کیا کرنا چاہیے…؟
گوشت استعمال کریں لیکن اعتدال کے ساتھ۔ اگر ایک وقت میں گوشت کھایا ہے، تو دوسرے وقت سبزی یا ہلکی غذا کھائیں۔ سُرخ گوشت میں چکنائی اور سخت ریشے ہوتے ہیں، جو معدے پر بوجھ بنتے ہیں۔
کلیجی، گردے اور مغز شوگر کے مریضوں کے لیے مناسب نہیں۔ گوشت، مچھلی، انڈے اور خشک میوہ جات میں متبادل غذائیت پائی جاتی ہے۔
سبزیوں کے ساتھ گوشت پکانے سے مضر اثرات کم ہوتے ہیں۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق گوشت کی تین حصوں میں تقسیم کی جائے تو فضول خرچی بھی نہ ہو۔
مفت ملنے والے گوشت سے اکثر لوگ پورے سال کی کسر نکالتے ہیں، جس سے بیماریاں پیدا ہوتی ہیں۔ جسم ایک وقت میں محدود مقدار ہی جزوِ بدن بنا سکتا ہے، باقی ضائع ہو جاتی ہے اور گردے دباؤ میں آ جاتے ہیں۔
مسالوں کا ضرورت سے زیادہ استعمال بھی معدے اور جگر کو نقصان پہنچاتا ہے۔ روزانہ 2 سے 3 بوٹیاں کافی ہیں، باقی پروٹین کی ضروریات دال، انڈے اور سویابین سے بھی پوری کی جا سکتی ہیں۔