گذشتہ پانچ روز سے علی پورہ روڈ پر ایک کمرے میں بچوں سمیت قید ہیں۔ کوئی جرم نہیں سوائے اس کے کہ نااہل و نالائق ضلعی انتظامیہ کے شہر میں کرایے کے ایک گھر میں رہتے ہیں۔ گھر کے اندر چند دن قبل رات گئے اچانک پانی آ گھسا ، آنکھ کھلی تو دیکھا لان اور سڑک ہر بہت زیادہ پانی ہے ، پانی گھر میں کم گھسے اس کے لیے ہر جتن کیا لیکن بے سود دیکھتے ہی دیکھتے کمروں میں پانچ پانچ فٹ پانی بھر گیا ، پریشانی میں کوئی حل نہیں سوجھا بچے پریشان کے بغیر ناشتہ کیے شام ہونے کو ہے نہ بیٹھنے کی جگہ ہر طرف پانی ہی پانی ، ساری عمر کچھ نہیں بنایا سوائے گھریلو ضروریات کے سامان کے ۔لیکن کسی اور کی غفلت کی وجہ سے لمحوں میں اپنا سارا فرنیچر پانی میں ڈبکیاں لیتے ہوئے دیکھتا رہا۔
کچن اور سٹور میں کھانے پینے کے سارے سامان کو بچانے کی کوشش بھی بے سود رہی حتیٰ کہ پانی سر تک آ گیا تو بہتے میزوں پر چڑھے بچے رونے لگے بھوک اور پریشانی میں بلکتی بیٹی اور بھتیجے نے تو ایسے جیسے جان ہی نکال لی باہر نکل نہیں پا رہے تھے اور چولہا جل نہیں رہا تھا کہ سوئچ بورڈز میں پانی جانے سے سرکٹ شارٹ ہو گیا تو مین سوئچ آف کرنا پڑا۔سارا دن پانی میں اندر باہر کی مشقت کے سوا کوئی چارہ نہ بچا۔ بچے 30 گھنٹے سے بھوکے ، کچھ کھلا دیں کی آوازیں دیتے رہے۔ اب اندھیرا ہونے والا تھا ۔اوپر کے فلور پر مالک مکان رہتے ہیں وہ بیرون ملک ہوتے ہیں انہیں فون کیا اس مشکل میں انہوں نے بچوں کو اوپر کمرے میں شفٹ کرنے کی اجازت دے دی ۔ ان کا تالا کھلوایا اور بچوں سمیت اوپر پہنچے اور ان کے کچن میں انڈے بنائے تو بچوں کی جان میں جان آئی۔ بچے کہنے لگے پاپا آج غزہ کے بچوں کا دکھ اور زیادہ سمجھ آیا ہے ۔
بھوکے پیاسے بچوں کا دکھ والدین ہی جان سکتے کسی بیوروکریٹ کو اس کی سمجھ نہیں آ سکتی۔ آج پانچواں دن تھا اور اب چھٹا دن ہو رہا ہے گھر کے اندر پانی کی سطح آج ایک دو فٹ کم ہوئی ہے زندگی بھر کی محبت و محنت سے جمع کتابیں جو میرا کل اثاثہ ہیں ان کی حالت دیکھی نہ گئی، ایسے جیسے دل پھٹ گیا ہو کلیجہ منہ کو آنے لگا۔۔ بس نمناک آنکھوں سے کمرے کا دروازہ ہی پٹخ سکا۔
گجرات کے متعدد علاقوں سے تاحال پانی نہ نکالا جا سکا، نکاسی کا گرینڈ آپریشن جاری
گھر والے یہ دیکھ کر پریشان کہ سامان الیکٹرانکس جل گیا ہے ، سارا فرنیچر ،صوفے، بیڈ سب پانی میں دفن اور ناکارہ ہیں پانی جمع رہنے سے تعفن نے دماغ خراب کر دیا، سوچا پانی بھر کر کچھ صاف کر لیں تو موٹر جل گئی ہوئی ملی۔۔ وائرنگ خراب ، دروازے بند نہیں ہورہے ۔
گندہ پانی جو چھونے پر خارش اور الرجی کے سوا کچھ نہیں دے رہا ۔بوجھل دل اور خاموشی سے واپس مہاجرت کی پناہ گاہ میں آگیا تو بچے دیکھ کر اور پریشان ہوئے انہیں تاحال نقصان اور تباہی بارے بتا نہیں سکا۔ بیٹی کہنے لگی بابا میونسپل کارپوریشن والوں کو فون کریں ان کی وجہ سے جو تباہی ہوئی ہے اس کی صفائی میں ہی مدد کر دیں۔۔ میں اسے بتا نہ سکا بیٹا میونسپل کارپوریشن ہی تو اس گہرے اور گاڑھے دکھ کی ذمہ دار ہے۔ خیر میں اس کی بات ٹال گیا ۔
پانچ روز سے جو قید ہم بھگت رہے ہیں اور جتنا نقصان ہوا ہے اس کا ازالہ تو میری اوقات بھی نہیں ۔ یہ سوچ سوچ کر پیشانی پر پریشانی کی شکنیں نمودار ہوئیں تو چھوٹی بیٹی نے پریشان دیکھتے ہی موضوع بدلنے کی کوشش کی اور مجھے جپھی ڈال کر کہنے لگی بابا باہر چاند گرہن ہے بلکہ آج تو خونی گرہن ہے وہ دیکھتے ہیں۔۔ آپ پریشان نہ ہوں پانچ روز سے ہم نے باہر کی کوئی چیز بھی نہیں کھائی ، نہ بسکٹ ، نہ لیز وغیرہ ہمارا بہت دل چاہ رہا تھا لیکن ہم نے آپ سے کہا ہی نہیں ۔۔آپ پریشان نہ ہوں آپ اس مہینے ہمیں کوئی چیز نہ کھلانا ۔۔۔ میں اس پر واری واری جاوْں ۔۔ کیوں نہ کھلاوْں ۔ ہم چاند گرہن دیکھنے لگے تو کہنے لگی یہ سرخ کیوں ہے میں اسے بتا نہ سکا جب ریاست ماں جیسی نہ رہے تو شہریوں کی زندگی کو گرہن نہیں خونی گرہن لگ جاتا ہے۔۔ بس چاند ہمارے دکھ میں خون کے آنسو رو رہا ہے۔
میں آنے والے دنوں میں زندگی کی بحالی بارے سوچنے لگا کہ تحلیل ہوتی ریاست جو خاکی و نوری اشرافیہ کی جنت ہے اس میں ایک کمزور اور بےبس کی زندگی ناری حیات بن کر رہ گئی ہے۔ اس ناری زندگی کو گجرات کی نااہل اور ناتجربہ کار انتظامیہ کی کوتاہیوں اور متکبرانہ مزاج نے میرے جیسوں کے لیے جہنمستان بنانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی ۔۔ وزیر اعلیٰ پنجاب کا دورہ ، وزراء اور سینئر بیورکریٹس کی گجرات آمد ، واسا کا تحرک اور فوج کی امیج بلڈنگ سب بیکار رہے۔۔ میں اور میرے جیسے لاکھوں گجراتی ضلعی انتظامیہ کی نااہلیت کا نشانہ بن کر برباد ہو گئے ہیں ۔ پانی جو چھٹے روز کے بعد شاید نکل جائے لیکن جس نقصان ، تباہی اور خانہ بربادی نے ہمارے گھر دیکھ لیے اور ہماری زندگی کا نور جو عین انتظامی نااہلیت کے سیلاب میں بہہ گیا ہے اس کا ازالہ کون کرے گا ؟ ڈی سی صاحبہ گجرات کی حاکمیت کے مزے لوٹتے رہنے کے لیے کوئی کمی نہیں چھوڑ رہیں _ انہوں نے وزیراعلیٰ کو جو بریفنگ دی اس سے لگا گجرات میں پانی کا بحران بس معمولی سی بات ہے ۔۔ رات بہت گہری ہو گئی ہے بلکہ شاید پانچویں رات ہے کہ نیند بھی نہیں آتی کہ کہیں کوئی اچھا سپنا ہی نہ دیکھ لوں ۔۔ آج کی مشکلات ایک عتاب سہی لیکن پانی اترنے کے بعد زندگی کو بحال کرنا واقعی کسی عذاب سے نجات جیسی کوشش کا متقاضی ہے۔
ملہو کھوکھر اور ڈی سی بند میں شگاف ڈالنے کی کوشش، مقدمہ درج
ہماری بدقسمتی کہ ہم ایسی ریاست کے شہری ہیں جو فلاحی نہیں، ایسی سیاسی اشرافیہ کے حامل ہیں جو محض شعبدہ باز ہے طرفہ تماشا یہ کہ ایسی انتظامیہ کے محکوم ہیں جو سنگدل ، بے رحم اور شخصی نرگسیت کے مرض کی شکار ہے۔ اس ریاست میں لوٹنے اور لٹنے کے تو کئی اسباب ہیں لیکن زندہ رہنے اور خاص کر حیاتِ نو کا کوئی وسیلہ نہیں۔ سوچ رہا ہوں مجھ اکیلے کی ہڈ بیتی نہیں اس شہر کے میرے جیسے لاکھوں لوگ آناً فاناً ضلعی انتظامیہ کی بھینٹ چڑھ گئے ہیں۔ کیسے اس شہر کو امان ملے گی۔ میں بہت کمزور ہوں شاید اسی لیے کسی مجرم کا گریبان نہیں پکڑ سکا، کسی منتظم کا منہ نہیں نوچ سکا۔
لیکن صرف سانس لینے کی بجائے زندہ رہنے کا شعور رکھتے اور اجتماعی شعور پر یقین رکھنے والے ہوتے تو ایک بھی ذمہ دار عوامی احتساب اور عوامی عدالت سے بچ نہ پاتا۔ کاش عوام زندہ ہوتے تو مہنگی گاڑیوں میں گھومتے ذمہ دران کو سرراہ سنگسار کر کے مثال قائم کر دیتے لیکن ہم کہاں اور انسانیت کہاں۔
درحقیقت اصل مجرم تو ہم شہری ہیں کہ جنہیں جوتے مارنے والوں کی تعداد بڑھانے کی درخواست سے زیادہ کچھ علم ہی نہیں۔ میں رات کے اس پہر اپنے رب کے حضور ضلعی انتظامیہ کی مجرمانہ نااہلیت ، کرپٹ سیاسی اشرافیہ کی بداعمالیوں اور حکومت پنجاب کی بانجھ عوام دوستی اور لوگوں کی ریوڑ پسند فکر کے خلاف ایف آئی آر درج کروانے کی عرضداشت پیش کر رہا ہوں اور وعدہ کرتا ہوں کے اپنی استعداد کے مطابق ذمہ داران کو کیفرکردار تک پہنچانے کے لیے اپنا ہر ممکن کردار ادا کرتا رہوں گا۔ اور یہ اچانک تباہی کبھی فراموش نہیں کروں گا۔