دنیا ایک ایسے نازک موڑ پر ہے جہاں عالمی رہنماؤں کے فیصلے براہ راست اقوام کے امن، استحکام اور مستقبل پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ ایسے میں اسرائیل کے وزیرِ اعظم نتن یاہو اور بھارت کے وزیرِ اعظم نریندر مودی کے درمیان بڑھتا ہوا اسٹریٹجک گٹھ جوڑ عالمی امن کے لیے ایک نیا خطرہ بنتا جا رہا ہے۔ دونوں رہنماؤں کے نظریاتی رجحانات، داخلی سیاست میں شدت پسندی کو ہوا دینا، اور عسکری طاقت کے استعمال کو اولین ترجیح دینا، اس خدشے کو تقویت دے رہا ہے کہ یہ اتحاد دنیا کو تصادم، تقسیم اور تباہی کی طرف دھکیل سکتا ہے۔
نظریاتی ہم آہنگی اور مشترکہ عزائم
نتن یاہو اور نریندر مودی دونوں ایسی حکومتوں کی قیادت کر رہے ہیں جو قوم پرستی اور عسکری جارحیت کو قومی مفاد کے نام پر بڑھاوا دیتی ہیں۔ اسرائیل میں فلسطینیوں پر مسلسل مظالم، غزہ میں بمباری، اور ایران پر حملوں کی حکمتِ عملی کے پیچھے نتن یاہو کی سخت گیر پالیسی کارفرما ہے، جو خطے کو مستقل جنگ کی کیفیت میں رکھے ہوئے ہے۔ دوسری جانب، نریندر مودی کی حکومت بھارت میں اقلیتوں، خصوصاً مسلمانوں کے خلاف متنازع پالیسیوں، کشمیر کی آئینی حیثیت کے خاتمے، اور سرحدی کشیدگی کو داخلی سیاست کے لیے استعمال کر رہی ہے۔
دونوں رہنماؤں نے اپنے اپنے ملکوں میں میڈیا کو کنٹرول، عدلیہ کو محدود، اور اپوزیشن کو کمزور کرنے کی پالیسیوں کو فروغ دیا ہے، جو عالمی جمہوری اقدار کے لیے ایک چیلنج بنتی جا رہی ہیں۔ ان کا گٹھ جوڑ صرف سفارتی اور عسکری تعلقات تک محدود نہیں بلکہ نظریاتی ہم آہنگی بھی رکھتا ہے، جو کہ "اسلامی دنیا” کے خلاف ایک مشترکہ مؤقف میں جھلکتا ہے۔ اسرائیل اور بھارت کے درمیان جدید ہتھیاروں، نگرانی کے نظام، اور سائبر ٹیکنالوجی میں تعاون اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ اتحاد صرف معاشی یا دفاعی نہیں، بلکہ نظریاتی سطح پر ایک خاص ایجنڈا رکھتا ہے۔

نظریاتی ہم آہنگی اور مشترکہ عزائم
علاقائی توازن میں بگاڑ اور ایٹمی خطرہ
مودی اور نتن یاہو کی قربت نے خطے کے توازن کو بگاڑ کر رکھ دیا ہے۔ اسرائیل کی طرف سے غزہ، شام اور ایران پر حملے اور بھارت کی طرف سے پاکستان اور چین کے ساتھ مسلسل کشیدگی اس بات کا اشارہ ہیں کہ دونوں ممالک جارحیت کو بطور حکمتِ عملی استعمال کر رہے ہیں۔ یہ رویہ عالمی سطح پر ایک خطرناک مثال قائم کر رہا ہے، جہاں مسئلہ حل کرنے کے بجائے طاقت کے استعمال کو ترجیح دی جا رہی ہے۔ اس گٹھ جوڑ کا سب سے بڑا خطرہ یہ ہے کہ دونوں ممالک ایٹمی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اگر ان کی پالیسیوں میں جارحیت، مذہبی تعصب اور علاقائی بالادستی کے عزائم کو روکا نہ گیا تو یہ دنیا کو ایٹمی تباہی کی طرف دھکیل سکتے ہیں۔
پہلگام واقعہ اور اس کے اثرات: ایک تشویشناک روایت
گزشتہ ماہ پاکستانی حدود میں اسرائیلی ڈرونز کی موجودگی اور اس کے بعد پہلگام واقعے نے اس خدشے کو مزید بڑھا دیا ہے۔ اس واقعے کے بعد جب پاکستان نے شفاف تحقیقات کے لیے ایک غیر جانب دار فورم کی پیشکش کی، تو بھارت نے اسے مسترد کرتے ہوئے بغیر کسی ثبوت کے پاکستان پر حملہ کر کے ایک نئی اور خطرناک روایت کا آغاز کیا۔ یہ پہلو اس گٹھ جوڑ کی جارحانہ نوعیت اور علاقائی امن کے لیے اس کے سنگین مضمرات کو مزید واضح کرتا ہے۔ ایک ایٹمی طاقت ہونے کے باوجود بھارت کا اس طرح کا اقدام عالمی سطح پر کشیدگی میں اضافے کا باعث بن سکتا ہے۔

پہلگام واقعہ اور اس کے اثرات: ایک تشویشناک روایت
تیسری عالمی جنگ کا بڑھتا ہوا خطرہ۔۔۔
یہ بات انتہائی تشویشناک ہے کہ اگر عالمی طاقتوں نے بروقت اور مؤثر اقدامات نہ کیے تو نتن یاہو اور مودی کا یہ اتحاد دنیا کو تیسری عالمی جنگ کی ایسی آگ میں دھکیل سکتا ہے جس میں نہ صرف مشرق وسطیٰ اور جنوبی ایشیا بلکہ پورا یورپ، امریکہ اور دنیا کا ہر ملک تباہی سے دوچار ہو جائے گا۔ ان دونوں رہنماؤں کی جارحانہ پالیسیاں اور علاقائی بالادستی کے عزائم، بالخصوص ان کے جوہری صلاحیت رکھنے کے پیشِ نظر، ایک عالمی تباہی کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتے ہیں۔
اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ عالمی برادری، خاص طور پر اقوام متحدہ اور دیگر بڑی طاقتیں، اس بڑھتے ہوئے خطرے کو سنجیدگی سے لیں اور سفارتی، اقتصادی اور سیاسی دباؤ کے ذریعے ان رہنماؤں کو ان کی جارحانہ پالیسیوں سے باز رکھیں۔ بصورتِ دیگر، انسانیت ایک ایسے بحران کے دہانے پر کھڑی ہو سکتی ہے جس کا نتیجہ صرف تباہی اور بربادی ہو گا۔