تاریخِ انسانیت کے دامن میں بے شمار واقعات ہیں، کچھ غم انگیز، کچھ عبرت خیز اور کچھ ایسے جو صدیوں بعد بھی ضمیرِ انسانی کو جھنجوڑتے ہیں۔ انہی واقعات میں ایک باب کربلا کے نام سے رقم ہے، جو صرف ایک جنگ نہیں بلکہ اصول، سچائی، قربانی، صبر، جرأت اور انسانی عظمت کا مظہر بن چکا ہے۔ حضرت امام حسینؓ کا کربلا میں دیا گیا پیغام صرف مسلمانوں کے لیے نہیں بلکہ پوری انسانیت کے لیے رہنمائی کا مینار ہے۔
امام حسینؓ کون تھے؟
حضرت امام حسینؓ نواسۂ رسول ﷺ، حضرت علیؓ اور حضرت فاطمہؓ کے فرزند، وہ ہستی ہیں جنہیں نبی اکرم ﷺ نے اپنی آنکھوں کا نور قرار دیا۔ آپؓ کا بچپن مدینۂ منورہ کی روحانی فضا میں گزرا۔ حضور اکرم ﷺ کی گود میں پروان چڑھے؛ ان کی دعائیں، شفقت اور تربیت آپؓ کے حصے میں آئیں۔ بچپن ہی سے آپؓ میں وہ اوصاف نظر آنے لگے تھے جو ایک بڑے مقصد کے لیے چنے گئے لوگوں میں ہوتے ہیں۔
کربلا کا پس منظر
سن 61 ہجری میں، جب یزید خلافت پر متمکن ہوا تو اُس نے امام حسینؓ سے بیعت کا مطالبہ کیا۔ امامؓ نے انکار کیا، کیونکہ اُن کے نزدیک خلافت کا مفہوم صرف حکومت نہیں بلکہ دین و شریعت کی پاسداری اور عدل و انصاف کا قیام تھا۔ آپؓ کے ضمیر نے گوارا نہ کیا کہ وہ ایسے نظام کو قبول کریں جو اسلامی تعلیمات کے خلاف ہو۔
کربلا: قربانی کا استعارہ
کربلا محض ایک مقام نہیں بلکہ ایک فلسفہ ہے۔ یہ سکھاتا ہے کہ اصولوں پر کبھی سمجھوتہ نہیں کیا جاتا، چاہے جان چلی جائے۔ امام حسینؓ نے میدانِ جنگ میں اپنے عزیز ترین ساتھیوں، بھائیوں، بھتیجوں اور بیٹوں کی قربانیاں اپنی آنکھوں سے دیکھیں، مگر ظلم کے آگے سر نہیں جھکایا۔ اُنہوں نے بتایا کہ فتح کا مفہوم صرف جنگ جیتنا نہیں، سچائی پر ثابت قدم رہنا بھی فتح ہے۔
یہ بھی پڑھیں: شیعہ عَلم کی تاریخ: آغاز، ارتقاء اور علامتی مفہوم
بچوں، خواتین اور اہلِ بیتؑ کا کردار
واقعۂ کربلا کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ اس میں عورتوں اور بچوں کا کردار نمایاں ہے۔ حضرت زینبؓ، امام حسینؓ کی بہن، صبر اور استقامت کی روشن مثال بن کر سامنے آئیں۔ اُنہوں نے یزیدی دربار میں حق و سچ کا ایسا کلام کیا جس نے ظالموں کے چہرے سے نقاب اتار دیا۔ یہ ہمیں سکھاتا ہے کہ عورت معاشرتی بیداری، دینی فہم اور مظلوموں کی آواز بن سکتی ہے۔
فرقہ واریت سے بالاتر پیغام
حضرت امام حسینؓ کا پیغام کسی ایک فرقے کے لیے مخصوص نہیں۔ آپؓ نے دین، ضمیر، حق اور انسانیت کے لیے قربانی دی۔ آپؓ کا مقصد اقتدار حاصل کرنا نہیں بلکہ دین کی اصل روح کو بچانا تھا۔ اسی لیے دنیا کا ہر مظلوم شخص امام حسینؓ میں اپنا عکس دیکھتا ہے—چاہے وہ مسلم ہو یا غیر مسلم؛ حسینؓ کی بات حق، مظلومیت، صداقت اور جرأت کی بات ہے۔
آج کا حسینؓ کون؟
کربلا ہمیں یہ بھی سکھاتا ہے کہ ہر دور میں یزید موجود ہوں گے؛ ایسے لوگ جو طاقت کے نشے میں حق کو کچلنے کی کوشش کریں گے۔ اور ہر دور میں حسینؓ بھی ہوں گے؛ وہ لوگ جو کمزور ہوں گے مگر اصولوں پر سمجھوتہ نہیں کریں گے۔ اگر ہم آج ظلم، ناانصافی، جھوٹ، منافقت اور ظلمت کے خلاف کھڑے ہونے کی ہمت رکھتے ہیں تو ہم بھی "اصحابِ حسینؓ” کی صف میں شامل ہو سکتے ہیں۔
حسینؓ سب کے ہیں
حضرت امام حسینؓ کا نام اُمتِ مسلمہ کی روح میں بستا ہے۔ اُن کی قربانی نے اسلام کو نئی زندگی عطا کی، اور اُن کی شہادت رہتی دنیا تک ظالموں کے خلاف ایک احتجاج بن گئی۔ ہمیں فرقہ واریت کے خول سے نکل کر اُس حسینؓ کو پہچاننا ہوگا جو انسانیت کی بقا کے لیے کھڑا ہوا؛ جو سچ کے لیے لڑا؛ جو آخری سانس تک نمازی رہا؛ جو حق پر قائم رہا اور دنیا کو یہ بتا گیا کہ مرنا بہتر ہے، مگر جھکنا نہیں۔
کربلا کی خاک پر وہ چراغ روشن ہوا
جس کی روشنی قیامت تک باقی رہے گی