اسلامی تہذیب میں علامات کا ایک خاص مقام رہا ہے۔ کربلا کے عظیم واقعے کے بعد شیعہ عزاداری نے کئی رسومات کو جنم دیا، جن میں "علم” (عَلَم) ایک نمایاں اور مستقل علامت بن کر ابھرا۔ یہ صرف ایک پرچم نہیں، بلکہ وفا، فداکاری، شہادت اور ولایت کا استعارہ ہے۔ بالخصوص شیعہ ماتمی جلوسوں میں جو علم اٹھایا جاتا ہے، اس کی جڑیں تاریخِ کربلا، حضرت عباسؑ کی شجاعت، اور اہلِ بیتؑ سے عقیدت میں پیوست ہیں۔
علم کا لغوی و مفہومی مطلب:
"علم” عربی زبان کا لفظ ہے، جس کے معنی ہیں "پرچم” یا "جھنڈا”۔ پرچم کسی لشکر، قوم یا فکر کی نمائندگی کرتا ہے۔ شیعہ روایت میں علم، حضرت عباسؑ ابن علیؑ کا جھنڈا تصور کیا جاتا ہے، جو کربلا میں امام حسینؑ کی فوج کے علمبردار تھے۔ یہ جھنڈا دراصل اہلِ بیتؑ کی غیرت، وفا، اور حق پرستی کا پرتو بن گیا۔
تاریخی پس منظر:
کربلا میں علم کا کردار:
10 محرم 61 ہجری کو میدانِ کربلا میں حضرت عباسؑ، جنہیں "علمدارِ وفا” کہا جاتا ہے، امام حسینؑ کی فوج کے علمبردار تھے۔ آپؑ کا جھنڈا ان کی موجودگی تک بلند رہا، اور جب آپؑ شہید ہوئے، تب علم زمین پر آ گرا۔ اس لمحے کو شیعہ عزاداری میں ایک اہم موڑ تصور کیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ علم کو "قربانی کی آخری نشانی” کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔
علم کی علامتی حیثیت کا آغاز:
کربلا کے بعد جب اسیری کا قافلہ شام، کوفہ اور مدینہ واپس آیا، تو اہلِ تشیع نے مظلومیتِ حسینؑ اور شہداء کربلا کی یاد میں مجلسیں منعقد کرنا شروع کیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ علامتی چیزیں جیسے تعزیہ، تابوت، اور علم شامل کیے گئے۔ تاریخ کی کتابوں میں 8ویں صدی ہجری سے "علم” کا باقاعدہ ذکر ملتا ہے، خصوصاً عراق اور ایران میں۔
علم کب اور کیسے رائج ہوا؟
صفوی دور میں علم کی ترویج:
16ویں صدی میں جب ایران میں صفوی سلطنت نے شیعہ اسلام کو ریاستی مذہب قرار دیا، تو عزاداری کی تمام علامات کو باقاعدہ حکومتی سرپرستی حاصل ہوئی۔ یہی وہ دور ہے جب علم، تعزیہ، شبیہ، اور زنجیر زنی کو باقاعدہ جلوسوں کا حصہ بنایا گیا۔ علم کو سب سے زیادہ تقدس اسی دور میں ملا، اور پھر ہندوستان، عراق، لبنان، پاکستان اور بحرین جیسے ممالک میں بھی یہ روایت جڑ پکڑ گئی۔
یہ بھی پڑھیں: 9 محرم، ملک بھر میں عزاداری کے جلوس، سیکیورٹی ہائی الرٹ، موبائل سروس معطل
پانچ انگلیوں والا علم کیا ہے؟
بعض شیعہ علاقوں میں علم پر "پانچ انگلیوں” کی شکل بنی ہوتی ہے، جسے "علمِ خمسہ” کہا جاتا ہے۔ یہ "پنجتن پاک” (حضرت محمد ﷺ، حضرت علیؑ، حضرت فاطمہؑ، حضرت حسنؑ، حضرت حسینؑ) کی نمائندگی کرتا ہے۔ یہ علامت اس بات کا اعلان ہے کہ عزادار نہ صرف حسینؑ کی یاد مناتے ہیں بلکہ ان کے گھرانے سے اپنی وفاداری کا اعلان بھی کرتے ہیں۔
علم کا ساختیاتی ارتقاء:
علم کی بناوٹ ہر خطے میں مختلف ہوتی ہے:
- ایران و عراق: دھات سے بنی ہوئی بالائی ساخت، اس پر مختلف زیورات، شیر یا سورج کی علامت
- ہندوستان و پاکستان: رنگین کپڑے، چاندی کے ہاتھ، آیاتِ قرآنی، پنجتن کے نام، شیر کی شکل
- لبنان و بحرین: سادہ سیاہ پرچم یا حضرت عباسؑ کی نعل کی شبیہ
علم اور حضرت عباسؑ کا تعلق:
حضرت عباسؑ کو علمبردار کہلانے کا شرف حاصل ہے۔ انہوں نے وفاداری، غیرت، اور قربانی کی وہ مثال قائم کی کہ جس پر علم آج بھی بلند ہے۔ علم کو اٹھانا گویا وفا، نصرتِ امام، اور صبر کا اعلان ہے۔ یہی وجہ ہے کہ علمدارِ حسینؑ کی یاد میں ان کے نام سے منسوب علم، ہر ماتمی جلوس کا روحانی مرکز ہوتا ہے۔
اگرچہ علم کی رسم بنیادی طور پر شیعہ مذہب سے جڑی ہے، لیکن برصغیر میں اہلِ سنت کے کئی صوفی سلسلے بھی اس سے مانوس ہیں۔ بعض سنی علاقے، جیسے لکھنؤ، دیوبند، لاہور کے بعض علاقوں میں اہلِ بیتؑ سے محبت کے طور پر تعزیہ اور علم کے جلوسوں میں شرکت کرتے ہیں۔
علم شیعہ روایت کا صرف ایک جھنڈا نہیں بلکہ پورا نظریہ ہے۔ یہ مظلوم کی حمایت، ظالم کے انکار، وفا کی انتہا، اور ولایت کی گواہی کا پرچم ہے۔ تاریخ نے اسے کئی بار سرنگوں کرنے کی کوشش کی، مگر ہر دور میں عزاداروں نے اس علم کو بلند رکھا۔ علم کا سفر کربلا سے شروع ہوا اور آج بھی دنیا کے ہر اس گوشے میں موجود ہے جہاں حسینؑ کے ماننے والے بستے ہیں۔