موجودہ دور میں، جہاں اسمارٹ فون اور سوشل میڈیا ہر لمحہ ہماری توجہ پر قابض ہیں، وہیں نوجوان نسل کا ایک حیران کن رویہ سامنے آیا ہے: فیس ٹو فیس بات چیت سے گریز۔ حالیہ تحقیق کے مطابق، جنریشن زی (18 سے 28 سال کے نوجوان) کی بڑی تعداد آمنے سامنے گفتگو کو "بورنگ” اور مشکل تصور کرتی ہے، اور صرف دو منٹ بعد دوبارہ اپنے فون کی طرف متوجہ ہو جاتی ہے۔
برطانیہ کی AXA UK کی سالانہ مائنڈ ہیلتھ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ 75 فیصد نوجوانوں کو فیس ٹو فیس بات چیت میں توجہ مرکوز رکھنے میں دشواری کا سامنا ہے، اور 39 فیصد افراد کو گفتگو کے دوران اپنے فون کو چیک کرنے کی شدید خواہش ہوتی ہے۔ ان کے لیے فون صرف ایک رابطے کا ذریعہ نہیں بلکہ ایک ’پناہ گاہ‘ بن چکا ہے — ایسے لمحات میں جب اصل دنیا کا سامنا مشکل محسوس ہو۔
فون سے جُڑے رہنا، مگر تنہائی میں ڈوبتے جانا
رپورٹ میں بتایا گیا کہ 38 فیصد نوجوانوں کو چہرہ بہ چہرہ بات چیت ’بورنگ‘ لگتی ہے، جب کہ 63 فیصد افراد نے اعتراف کیا کہ وہ حقیقی زندگی میں بات چیت کو چیلنجنگ محسوس کرتے ہیں۔ اس ڈیجیٹل انحصار نے نوجوانوں کے لیے سماجی روابط کو پیچیدہ بنا دیا ہے۔ اب اکثر نوجوان فون کو اپنے جذباتی تحفظ کا ذریعہ سمجھتے ہیں، جو انہیں مشکل یا غیر آرام دہ سماجی حالات سے بچاتا ہے۔
مزید پریشان کن بات یہ ہے کہ ایک تہائی نوجوان فون کے بغیر بے چینی کا شکار ہو جاتے ہیں، اور 28 فیصد کو اس وقت اضطراب محسوس ہوتا ہے جب ان کے پاس فون نہ ہو یا وہ آن لائن نہ ہوں۔ نیند کے معمولات، خود اعتمادی، اور حقیقی دنیا سے تعلق — سب کچھ متاثر ہو رہا ہے۔

Social media is negatively impacting self-esteem the report shows(Image: Getty Images)
ہمیشہ آن لائن رہنے کا دباؤ
نوجوانوں میں ’ہمیشہ آن‘ رہنے کی ذہنیت بھی نفسیاتی دباؤ کی ایک بڑی وجہ بن چکی ہے۔ رپورٹ کے مطابق، نصف سے زائد نوجوان خود پر یہ دباؤ محسوس کرتے ہیں کہ ہر پیغام کا فوری جواب دیا جائے، چاہے وہ ایسا نہ بھی چاہیں۔ کچھ تو رات کے وقت نیند سے اٹھ کر بھی اپنے فون چیک کرتے ہیں، جس کا براہِ راست اثر ان کی نیند، توانائی اور ذہنی سکون پر پڑتا ہے۔

The majority use their phones as a form of escapism (Image: Getty Images)
سوشل میڈیا: حقیقت یا فریب؟
رپورٹ یہ بھی ظاہر کرتی ہے کہ ایک تہائی نوجوان سوشل میڈیا پر دوسروں کی ظاہری ’مثالی زندگیوں‘ سے متاثر ہو کر اپنی خود اعتمادی کھو دیتے ہیں۔ دوسروں کی تصاویر اور کامیابیاں دیکھ کر اکثر نوجوان احساسِ کمتری میں مبتلا ہو جاتے ہیں، جس سے اضطراب اور ڈپریشن جیسے نفسیاتی مسائل بڑھتے ہیں۔
کیا نوجوان مدد لے رہے ہیں؟
تشویش کی بات یہ ہے کہ ذہنی صحت کے مسائل کا سامنا کرنے والے نوجوانوں میں سے صرف 14 فیصد ماہرین سے مدد لیتے ہیں۔ زیادہ تر اپنے دوستوں یا پارٹنر سے بات کرتے ہیں، جبکہ کچھ کے پاس بات کرنے کے لیے کوئی نہیں ہوتا۔
ڈیجیٹل توازن کی ضرورت
ماہرین کا ماننا ہے کہ فون کو مکمل طور پر ترک کرنے کے بجائے، اس کے استعمال میں توازن قائم کرنا ضروری ہے۔ صبح اور رات کے وقت اسکرین سے دور رہنا، سوشل میڈیا نوٹیفیکیشنز کو محدود کرنا، اور ’سکرین فری‘ سرگرمیوں میں مشغول ہونا — یہ وہ عادات ہیں جو نوجوانوں کی ذہنی صحت کو بہتر بنا سکتی ہیں۔

28% said being without their phone triggers anxiety (Image: Getty Images)
جڑیں، مگر حقیقت سے
یہ رپورٹ ہمیں خبردار کرتی ہے کہ جنریشن زی ایک ایسی دنیا میں جی رہی ہے جو مکمل طور پر ڈیجیٹل ہے، مگر اندر سے خالی۔ حقیقی تعلقات، آمنے سامنے گفتگو، اور جذباتی جُڑاؤ کو بچانے کے لیے اب ہمیں ٹیکنالوجی اور انسانیت کے درمیان توازن قائم کرنا ہو گا۔ ورنہ ایک ایسی نسل ہمارے سامنے ہوگی، جو سب سے زیادہ جڑی ہوئی ہوگی — مگر سب سے زیادہ تنہا بھی۔