بھارت میں ایئر انڈیا کا طیارہ تباہ: بوئنگ 787 کا پہلا بڑا حادثہ، کئی اہم سوالات جنم لینے لگے

تازہ ترین خبروں اور تبصروں کیلئے ہمارا وٹس ایپ چینل جوائن کریں

بھارت میں ایئر انڈیا کا ایک بڑا فضائی حادثہ پیش آیا جس نے نہ صرف مسافروں کے اہلِ خانہ بلکہ عالمی سطح پر فضائی تحفظ کے نظام پر بھی سنجیدہ سوالات اٹھا دیے ہیں۔ گجرات کے شہر احمد آباد میں ایئر انڈیا کی پرواز AI-171 کے کریش نے ملک میں سوگ کی فضا قائم کر دی ہے۔ اس حادثے کی سنگینی اور اس کے پسِ منظر کو سمجھنا نہایت ضروری ہے۔

latest urdu news

طیارہ حادثے کی تفصیلات

ایئر انڈیا کی پرواز AI-171 دوپہر ایک بج کر 25 منٹ پر احمد آباد کے سردار ولبھ بھائی پٹیل انٹرنیشنل ایئرپورٹ سے لندن کے لیے روانہ ہوئی۔ روانگی کے ایک منٹ بعد ہی طیارے سے کنٹرول ٹاور کا رابطہ منقطع ہو گیا۔ اس سے پہلے پائلٹ نے ایک بج کر 39 منٹ پر "مے ڈے” کال دی، جو کہ ایمرجنسی سگنل ہوتا ہے۔ یہ واضح کرتا ہے کہ کچھ لمحے پہلے تک طیارہ پرواز میں تھا، لیکن شدید فنی خرابی کے سبب وہ زمین بوس ہو گیا۔

طیارہ بوئنگ 787 ڈریم لائنر ماڈل کا تھا، جو دنیا کے جدید ترین کمرشل طیاروں میں شمار کیا جاتا ہے۔ یہ حادثہ 11 سال پرانے ایک ایسے طیارے کو پیش آیا جو چند ہفتے قبل ہی مکمل انسپکشن سے گزر چکا تھا۔ اس ماڈل کو دنیا بھر میں محفوظ اور قابل بھروسہ سمجھا جاتا تھا، اور کمپنی کے مطابق اس طیارے نے اب تک ایک ارب سے زائد مسافروں کو ان کی منزلوں تک بحفاظت پہنچایا تھا۔

اہم مسافر اور متاثرہ مقام

حادثے کا شکار ہونے والے طیارے میں گجرات کے سابق وزیرِ اعلیٰ وجے روپانی سمیت 240 سے زائد مسافر سوار تھے۔ ان میں 169 بھارتی، 53 برطانوی، ایک کینیڈین، 7 پرتگالی شہری اور 11 بچے شامل تھے۔ طیارہ ایک بج کر 26 منٹ پر ٹیک آف کرتے ہوئے محض 625 فٹ کی بلندی تک پہنچ سکا اور 322 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے پرواز کر رہا تھا کہ اچانک تکنیکی خرابی کے باعث قابو سے باہر ہو کر زمین سے ٹکرا گیا۔

بدقسمتی سے طیارہ شہر کے مشہور بی جے میڈیکل کالج کے ہاسٹل میس پر گرا، جہاں اس وقت درجنوں طلباء اور ڈاکٹرز موجود تھے۔ اس باعث ہلاکتوں میں مزید اضافے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے، کیونکہ نہ صرف طیارے کے مسافر بلکہ زمین پر موجود افراد بھی اس المیے کی لپیٹ میں آ گئے۔

بوئنگ 787 کا پہلا بڑا حادثہ

یہ حادثہ اس لیے بھی انتہائی توجہ کا باعث بن رہا ہے کیونکہ یہ پہلا موقع ہے جب بوئنگ 787 ماڈل کسی بڑی تباہی کا شکار ہوا ہے۔ 14 سال قبل متعارف ہونے والا یہ ماڈل دنیا بھر میں اپنی ایندھن بچانے کی صلاحیت، جدید نیویگیشن سسٹم اور خودکار پرواز خصوصیات کی وجہ سے مشہور ہے۔ اسی لیے اس حادثے نے نہ صرف بھارت بلکہ بین الاقوامی سطح پر ایوی ایشن ماہرین کو حیران کر دیا ہے۔

حکومت پر تنقید اور انکوائری کا مطالبہ

حادثے کے بعد بھارتی ایئرلائن سسٹم اور سول ایوی ایشن اتھارٹی پر شدید تنقید شروع ہو گئی ہے۔ اپوزیشن نے اس افسوسناک واقعے پر وزیر اعظم نریندر مودی اور ایوی ایشن منسٹر کے خلاف انکوائری کا مطالبہ کیا ہے۔ سوالات اٹھائے جا رہے ہیں کہ:

  • کیا طیارے کی بروقت مینٹیننس کی گئی تھی؟
  • کیا عملہ مکمل تربیت یافتہ تھا؟
  • کیا ایئرپورٹ کے ٹیک آف سسٹم میں کوئی تکنیکی مسئلہ موجود تھا؟

آخری رابطہ اور مسافروں کی قسمت

پائلٹ کا آخری رابطہ جس میں "مے ڈے” کال دی گئی، ایک ہنگامی وارننگ تھی جس کا مطلب ہے کہ طیارے کو فوری مدد کی ضرورت تھی۔ مگر صرف ایک منٹ کے اندر ہی رابطہ منقطع ہو جانا اس بات کا عندیہ ہے کہ صورتحال غیر معمولی حد تک بگڑ چکی تھی۔ اب تک جو معلومات منظرِ عام پر آئی ہیں، ان سے لگتا ہے کہ کسی شدید فنی خرابی کے باعث طیارہ نہ سنبھل سکا۔

سانحے کے اثرات اور آئندہ اقدامات

ایئر انڈیا کے اس سانحے نے کئی خاندانوں کو غم میں مبتلا کر دیا ہے۔ ایوی ایشن انڈسٹری کے لیے یہ ایک بڑا دھچکہ ہے، خاص طور پر بوئنگ کے لیے جس کا یہ ماڈل اب تک محفوظ ترین طیاروں میں شمار کیا جاتا تھا۔ اس حادثے کے بعد عالمی ایوی ایشن ادارے اور خود بوئنگ کمپنی بھی انکوائری شروع کر چکی ہے۔

یاد رہے کہ ماضی میں بھی بھارت میں ایئر انڈیا کے حادثات سامنے آتے رہے ہیں، مگر اس بار سوالات صرف تکنیکی خرابی پر نہیں بلکہ حکومتی انتظامات، نگرانی اور شفافیت پر بھی اٹھ رہے ہیں۔ اس کے جواب میں مستقبل میں مسافروں کے تحفظ کے لیے سخت اقدامات کی ضرورت ہے، تاکہ اس قسم کے سانحات دوبارہ رونما نہ ہوں۔

شیئر کریں:

ہمیں فالو کریں

frontpage hit counter