جمعہ, 25 اپریل , 2025

عورتیں جو جینا چاہتی تھیں

تازہ ترین خبروں اور تبصروں کیلئے ہمارا وٹس ایپ چینل جوائن کریں

ان دونوں عورتوں کا “جرم” صرف یہ تھا کہ وہ کام کرتی تھیں، اپنی مرضی کی زندگی جینا چاہتی تھیں اور “نہ” کہنے کی ہمت رکھتی تھیں۔

گزشتہ ہفتے سندھ کے دو مختلف شہروں سے تعلق رکھنے والی دو خودمختار خواتین کو بے دردی سے قتل کر دیا گیا۔ لاڑکانہ کی سرکاری اسکول ٹیچر صدف حاصلو اور میرپورخاص کی پولیس اہلکار مہوش جروار — دونوں کے قاتل پولیس سے تعلق رکھنے والے مرد تھے۔ یعنی اسی ادارے کے نمائندے، جس پر ان کے تحفظ کی ذمہ داری تھی۔

latest urdu news

صدف حاصلو، لاڑکانہ کی ایک باہمت لڑکی تھی۔ والد کے انتقال کے بعد اس نے ماں کے ساتھ گھر کی ذمہ داریاں سنبھالیں۔ کبھی پرائیویٹ اسکولوں میں معمولی تنخواہ پر پڑھاتی رہی، کبھی ٹیوشن دیتی رہی اور بالآخر سرکاری اسکول میں ملازمت حاصل کی۔ مگر معاشرہ ایک خودمختار عورت کو کب قبول کرتا ہے؟

ایک پولیس اہلکار صدف سے شادی کا خواہشمند تھا۔ صدف کی ماں نے نکاح کی اجازت تو دے دی، مگر رخصتی سے قبل کچھ شرائط رکھیں۔ پولیس اہلکار نے سمجھا اب صدف اس کی ملکیت ہے۔ وہ بار بار صدف کے گھر آ کر دھمکیاں دیتا۔ صدف نے ہمت کی، خلع لی اور عدالت سے تحفظ مانگا۔ مگر نہ تحفظ ملا، نہ انصاف۔

کچھ دن بعد جب صدف اسکول سے واپس آ رہی تھی، اسی پولیس اہلکار نے سرِعام اسے گولی مار دی۔ آج بھی وہ قاتل آزاد گھوم رہا ہے، جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔

مہوش جروار، میرپورخاص کی ایک پولیس کانسٹیبل، بھی ایسی ہی کہانی کی ایک اور قسط تھی۔ یتیم لڑکی، جو غربت کے سائے میں پلی بڑھی، کو دو سال پہلے پولیس میں نوکری ملی۔ مگر وردی پہننے کے بعد بھی وہ محفوظ نہ ہو سکی۔

یوسف کھوسہ نامی پولیس اہلکار نے اسے بلیک میل کرنا شروع کیا۔ تنگ آ کر مہوش نے اپنی پوسٹنگ بدلوا کر حیدرآباد چلی گئی، لیکن مجبوراً واپس میرپورخاص آئی۔ اور پھر ایک دن، اپنی وردی میں ہی پھندے سے جھولتی پائی گئی۔

مہوش نے بھی آواز اٹھائی، مقام بدلا، شکایات درج کیں، مگر سسٹم نے اس کی آواز سننے سے انکار کر دیا۔ ایف آئی اے میں درج شکایت کئی مہینے گزرنے کے باوجود سرد خانے کی نذر ہو چکی ہے۔

سوال یہ ہے کہ اگر صدف اور مہوش جیسی تعلیم یافتہ، بہادر، محنتی عورتیں بھی اس معاشرے میں محفوظ نہیں، تو باقی خواتین کے لیے تحفظ کی ضمانت کون دے گا؟

یہ کہانیاں صرف دو خواتین کی نہیں، بلکہ ایک ایسے نظام کی داستان ہیں جو عورت کو صرف اسی وقت برداشت کرتا ہے جب وہ سر جھکا لے، خاموشی سے “ہاں” کہتی رہے، اور اپنی خودمختاری ترک کر دے۔

صدف اور مہوش جیسے بے شمار چہرے روز جیتے ہیں، روز مرتے ہیں۔ وہ صبح کام پر نکلتے ہیں، شام کو تھکے ہارے لوٹتے ہیں، مگر امید رکھتے ہیں کہ شاید ایک دن یہ معاشرہ انہیں جینے کا حق دے گا۔

شیئر کریں:
frontpage hit counter