زمین کی اندرونی تہہ میں چھپا راز سامنے آگیا: سائنسدانوں کا انکشاف

تازہ ترین خبروں اور تبصروں کیلئے ہمارا وٹس ایپ چینل جوائن کریں

سائنسدانوں نے زمین کے سب سے گہرے رازوں میں سے ایک کو بے نقاب کرتے ہوئے انکشاف کیا ہے کہ زمین کی اندرونی تہہ کا جمنے کا عمل "کاربن” کی بدولت ممکن ہوا۔

اس تحقیق نے اس راز سے پردہ ہٹایا کہ زمین کے مرکز میں موجود سخت دھاتی گولہ نما تہہ کس طرح وجود میں آئی اور اس کا زمین کے مقناطیسی میدان سے کیا تعلق ہے۔

latest urdu news

تحقیق کے مطابق زمین کی اندرونی تہہ، جو کہ پگھلی ہوئی بیرونی تہہ سے گھری ہوئی ہے، آہستہ آہستہ ٹھوس شکل اختیار کرتی جا رہی ہے۔

سائنسدانوں کے لیے طویل عرصے سے یہ ایک معمہ رہا کہ یہ جمنے کا عمل کب اور کیسے شروع ہوا، اور کن کیمیائی عناصر نے اس میں کردار ادا کیا۔ اب برطانیہ کی آکسفورڈ، لیڈز اور لندن یونیورسٹیوں کے محققین نے یہ راز کھول دیا ہے کہ زمین کی اندرونی تہہ کاربن کی مدد سے ٹھوس ہونے میں کامیاب ہوئی۔

کمپیوٹر ماڈلز کی مدد سے کی گئی تحقیق سے معلوم ہوا کہ اندرونی تہہ کے جمنے کے لیے تقریباً 3.8 فیصد کاربن کا ہونا ضروری تھا، جو کرسٹل بننے کے عمل کو ممکن بناتا ہے۔ اس دریافت نے یہ واضح کیا ہے کہ کاربن صرف زندگی کے لیے ہی نہیں بلکہ زمین کی اندرونی ساخت کے لیے بھی نہایت اہم عنصر ہے۔

تحقیق سے یہ بھی معلوم ہوا کہ سلفر اور سلیکون جیسے عناصر جمنے کے عمل کو سست کرتے ہیں، جبکہ کاربن اس عمل کو تیز کرتا ہے۔ اگر اندرونی تہہ خالص لوہے پر مشتمل ہوتی، تو اسے جمنے کے لیے منفی 800 سے 1000 ڈگری سینٹی گریڈ درجہ حرارت درکار ہوتا، جو زمین کے قدرتی نظام کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتا تھا۔ مگر محققین کے مطابق یہ عمل منفی 250 ڈگری سینٹی گریڈ پر ہوا، جس سے زمین کے مقناطیسی میدان کو استحکام ملا۔

اونچی ہیل پہن کر پیچھے دوڑنے کا نیا عالمی ریکارڈ قائم

یہ بھی واضح کیا گیا کہ زمین کی اندرونی تہہ، جو چاند کے حجم کے تقریباً 70 فیصد کے برابر ہے، ہمارے پیروں کے نیچے 4800 کلومیٹر گہرائی میں واقع ہے۔ یہاں موجود مختلف عناصر جیسے آکسیجن، سلفر، سیلیکون اور کاربن نے باہم مل کر ایسا کیمیائی توازن پیدا کیا جس کی بدولت اندرونی تہہ جمنے میں کامیاب ہوئی۔

یہ تحقیق، جو جرنل "نیچر کمیونیکیشنز” میں شائع ہوئی ہے، زمین کی ساخت اور اس کی مقناطیسی حفاظت کے نظام کو سمجھنے میں اہم پیشرفت سمجھی جا رہی ہے۔ یہ نئی معلومات نہ صرف زمین کے ماضی کو سمجھنے میں مدد فراہم کرتی ہیں بلکہ ہمارے سیارے کے مستقبل پر بھی روشنی ڈالتی ہیں۔

شیئر کریں:

ہمیں فالو کریں

frontpage hit counter