جاپان کی کمپنی کونیل نے نیند کی کمی سے نمٹنے کے لیے ایک اسمارٹ پفر جیکٹ متعارف کروائی ہے جو بائیومیٹرک ڈیٹا استعمال کرکے کسی بھی جگہ مختصر نیند لینے میں مدد دیتی ہے۔
ٹوکیو: جاپان کو دنیا بھر میں نیند کی کمی سے سب سے زیادہ متاثرہ ممالک میں شمار کیا جاتا ہے، جہاں کے شہری مصروف طرزِ زندگی کے باعث اکثر نیند کی بنیادی ضرورت سے محروم رہتے ہیں۔ ایسے میں جاپانی کمپنی "کونیل” نے اس مسئلے کا ایک انوکھا اور جدید حل پیش کیا ہے، جو ٹیکنالوجی، تخلیق اور انسانی ضرورت کا امتزاج ہے — اور وہ ہے ایک اسمارٹ پفر جیکٹ۔
یہ جیکٹ، جسے ZZZN سلیپ جیکٹ کا نام دیا گیا ہے، فی الوقت صرف کانسیپٹ کی صورت میں موجود ہے، تاہم اسے آئندہ دنوں اوساکا میں ہونے والی ایکسپو 2025 میں نمائش کے لیے پیش کیا جائے گا۔ کمپنی کے مطابق یہ جیکٹ مختصر نیند یا قیلولے میں مدد دینے کے لیے تیار کی گئی ہے، اور اس میں بائیومیٹرک ڈیٹا جیسے دل کی دھڑکن اور جسمانی درجہ حرارت کا استعمال کرتے ہوئے صارف کے جسم کو نیند کے لیے موزوں حالت میں لایا جاتا ہے۔
کونیل کے کریئیٹو ڈائریکٹر ڈیائی مائیاتا کا کہنا ہے:
"ہم سمجھتے ہیں کہ نیند زندگی کا ایک بنیادی اور اہم جز ہے، مگر کسی کو زبردستی سونے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا، اس لیے ہم نے ایسا لباس تخلیق کیا ہے جو انسان کو خودبخود نیند کی طرف مائل کرے۔”
اس جیکٹ کا حجم ایک عام جیکٹ سے قدرے بڑا ہے، مگر اسے روزمرہ استعمال کے قابل بھی بنایا گیا ہے۔ نیند کے لیے جیکٹ کے ہڈ میں نصب ایک خاص ’سلیپ موڈ‘ کو آن کرنا پڑتا ہے، جو اندرونی نظام کو فعال کر دیتا ہے اور جسم کو آہستہ آہستہ آرام دہ کیفیت میں لے آتا ہے۔

جاپان نے نیند میں مدد دینے والی اسمارٹ جیکٹ متعارف کرادی
کمپنی کا ماننا ہے کہ اس جیکٹ کی بدولت نہ صرف شہریوں کو مختصر قیلولے لینے میں مدد ملے گی بلکہ جاپان جیسے نیند کی کمی کے شکار معاشرے میں اس حوالے سے شعور بھی پیدا ہوگا۔
یہ منصوبہ 2024 میں شروع کیا گیا تھا اور اسے جاپان کی وزارتِ معیشت، تجارت و صنعت کی مالی معاونت بھی حاصل ہے، جو اس منصوبے کی اہمیت اور قومی سطح پر مسئلے کی سنگینی کو ظاہر کرتی ہے۔
یاد رہے کہ جاپان دنیا کے ان چند ممالک میں شامل ہے جہاں کام کا بوجھ، سخت مسابقت اور وقت کی قلت کے باعث نیند کی کمی ایک سنگین سماجی و طبی مسئلہ بن چکی ہے۔ حالیہ دہائیوں میں مختلف تحقیقی رپورٹس میں جاپانی شہریوں کی کم سونے کی شرح پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے، اور کئی طبی ادارے اسے ایک ’خاموش بحران‘ قرار دے چکے ہیں۔