وفاقی وزیر طارق فضل چوہدری نے پاکستان تحریک انصاف کو باضابطہ طور پر مذاکرات کی دعوت دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگر اپوزیشن واقعی سنجیدہ ہے تو 12 جنوری کو ٹھوس اور قابلِ عمل تجاویز کے ساتھ اسپیکر قومی اسمبلی کے دفتر میں آئے۔ ان کا کہنا تھا کہ بات چیت کے دروازے بند نہیں ہیں، مگر مذاکرات کے لیے واضح مینڈیٹ اور سنجیدہ رویہ ضروری ہے۔
نجی ٹی وی پروگرام کیپٹل ٹاک میں گفتگو کرتے ہوئے طارق فضل چوہدری نے کہا کہ 12 جنوری کو قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کیا گیا ہے اور یہی مناسب موقع ہے کہ تحریک انصاف مذاکرات کے لیے عملی تجاویز پیش کرے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کسی بھی سیاسی جماعت سے بات چیت کے حق میں ہے، بشرطیکہ اس کا مقصد سیاسی استحکام اور نظام کو آگے لے جانا ہو۔
وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ وہ ذاتی طور پر بھی پی ٹی آئی کے بعض سینئر اور پرانے رہنماؤں سے بات کرنے کے لیے تیار ہیں۔ انہوں نے فواد چوہدری، عمران اسماعیل اور دیگر رہنماؤں کا نام لیتے ہوئے کہا کہ اگر یہ لوگ مذاکرات کرنا چاہتے ہیں تو انہیں باقاعدہ پارٹی مینڈیٹ کے ساتھ آنا ہوگا، کیونکہ بغیر اختیار کے کی جانے والی بات چیت کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔
طارق فضل چوہدری نے پی ٹی آئی کی اندرونی صورتحال پر بات کرتے ہوئے کہا کہ بانی پی ٹی آئی عمران خان نے سیاسی معاملات کا اختیار محمود خان اچکزئی کو دیا ہے، تاہم دوسری جانب علیمہ خان کا بیان سامنے آتا ہے کہ جو بھی مذاکرات کی بات کرے گا، اس کا تحریک انصاف سے کوئی تعلق نہیں ہوگا۔ ان کے مطابق یہ متضاد بیانات خود اپوزیشن کی سنجیدگی پر سوالیہ نشان ہیں۔
مذاکرات کی بات حکومت کی جانب سے آئی، تحریک تحفظ آئین کی نہیں: علیمہ خان
اسی پروگرام میں موجود پی ٹی آئی رہنما مینا خان آفریدی نے حکومتی مؤقف پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ بانی پی ٹی آئی عمران خان نے واضح طور پر محمود خان اچکزئی اور علامہ راجا ناصر عباس کو مذاکرات کا مینڈیٹ دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر حکومت واقعی مسائل کا حل چاہتی ہے تو اسے انہی رہنماؤں سے بات چیت کرنی چاہیے جنہیں پارٹی کی قیادت کی حمایت حاصل ہے۔
مینا خان آفریدی نے مزید کہا کہ پی ٹی آئی مذاکرات سے فرار نہیں چاہتی، مگر بات چیت برابری کی بنیاد پر ہونی چاہیے اور اس کا مقصد سیاسی انتقام کے بجائے آئین، جمہوریت اور عوامی مسائل کا حل ہونا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کے بیانات اور عملی اقدامات میں واضح تضاد پایا جاتا ہے، جس کی وجہ سے شکوک و شبہات جنم لے رہے ہیں۔
سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مذاکرات کی یہ نئی پیشکش موجودہ سیاسی جمود کو توڑنے کا موقع فراہم کر سکتی ہے، تاہم اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ فریقین کتنی سنجیدگی اور لچک کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ 12 جنوری کا دن اس حوالے سے اہم قرار دیا جا رہا ہے، جس میں یہ واضح ہو سکتا ہے کہ آیا مذاکرات واقعی آگے بڑھتے ہیں یا محض بیانات تک محدود رہتے ہیں۔
