ملکۂ ترنم کی یادیں آج بھی زندہ، نورجہاں کو مداحوں سے جدا ہوئے پچیس برس گزر گئے

تازہ ترین خبروں اور تبصروں کیلئے ہمارا وٹس ایپ چینل جوائن کریں

برصغیر کی موسیقی کی دنیا میں ملکۂ ترنم کے نام سے پہچانی جانے والی عظیم گلوکارہ نورجہاں کو اس دنیا سے رخصت ہوئے 25 برس بیت چکے ہیں، مگر ان کی آواز، ان کے گیت اور ان کا فن آج بھی کروڑوں دلوں میں زندہ ہے۔ نورجہاں نہ صرف پاکستان بلکہ پورے برصغیر کی موسیقی کی تاریخ کا ایک سنہرا باب ہیں، جن کا خلا آج تک پُر نہیں ہو سکا۔

latest urdu news

میڈم نورجہاں 21 ستمبر 1926ء کو قصور کے ایک موسیقی سے وابستہ گھرانے میں پیدا ہوئیں۔ بچپن ہی سے ان کے اندر موسیقی کا غیر معمولی جوہر نمایاں تھا۔ محض نو برس کی عمر میں انہوں نے فلمی دنیا میں قدم رکھا اور اپنی دلکش آواز کے باعث کم ہی عرصے میں ایک مقبول چائلڈ اسٹار کے طور پر پہچان بنا لی۔ وقت کے ساتھ ساتھ ان کی فنی صلاحیتوں میں نکھار آتا گیا اور وہ برصغیر کی صفِ اول کی گلوکاراؤں میں شامل ہو گئیں۔

نورجہاں نے اپنے طویل اور شاندار فلمی کیریئر کے دوران ہزاروں فلمی اور غیر فلمی گیت گائے۔ رومانوی نغموں سے لے کر درد بھرے گیتوں اور کلاسیکی راگوں تک، انہوں نے ہر صنف میں اپنی آواز کا جادو جگایا۔ ان کی گائی ہوئی غزلیں اور نغمے آج بھی موسیقی کے شائقین کے لیے ایک قیمتی خزانہ سمجھے جاتے ہیں۔

1965ء کی پاک بھارت جنگ کے دوران نورجہاں نے جو ملی نغمے گائے، وہ پاکستان کی تاریخ میں ایک خاص مقام رکھتے ہیں۔ ان کے گائے ہوئے قومی ترانے اور جنگی نغمے آج بھی حب الوطنی کے جذبے کو تازہ کر دیتے ہیں اور قوم کے حوصلے اور عزم کی علامت سمجھے جاتے ہیں۔

نورجہاں کی گراں قدر خدمات کے اعتراف میں حکومتِ پاکستان نے انہیں صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی اور نشانِ امتیاز جیسے اعلیٰ اعزازات سے نوازا۔ یہ اعزازات ان کے غیر معمولی فن اور قومی خدمات کا اعتراف تھے۔

ملکۂ ترنم نورجہاں 23 دسمبر 2000ء کو اس دنیا سے رخصت ہو گئیں، مگر ان کی آواز آج بھی ریڈیو، ٹیلی وژن اور ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کے ذریعے زندہ ہے۔ ان کے گیت آج کی نئی نسل بھی شوق سے سنتی ہے، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ عظیم فنکار وقت کی قید سے آزاد ہوتے ہیں۔ نورجہاں کا فن، ان کی آواز اور ان کا نام ہمیشہ زندہ رہے گا۔

شیئر کریں:

ہمیں فالو کریں

frontpage hit counter