علیمہ خان نے واضح کیا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف میں مذاکرات کی بات کرنے والے رہنما بانی چیئرمین عمران خان کے مؤقف کے نمائندہ نہیں ہیں۔ ان کے مطابق عمران خان نے اس حوالے سے اپنا فیصلہ پہلے ہی واضح کر دیا ہے۔
علیمہ خان کی عدالت کے باہر گفتگو
انسدادِ دہشت گردی عدالت راولپنڈی کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے علیمہ خان کا کہنا تھا کہ جو بھی پی ٹی آئی لیڈر مذاکرات کی بات کرتا ہے، وہ نہ عمران خان کے ساتھ ہے اور نہ ہی پارٹی کی اصل پالیسی کی نمائندگی کرتا ہے۔ ان کے مطابق بانی پی ٹی آئی اس وقت کسی قسم کی مفاہمت کے حق میں نہیں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ عمران خان نے اپنی جماعت کو واضح پیغام دے دیا ہے کہ موجودہ حالات میں اسٹریٹ موومنٹ ہی واحد راستہ ہے۔ یہ پیغام خاص طور پر خیبر پختونخوا کی قیادت تک پہنچایا جا چکا ہے۔
تحریک تحفظ آئین پاکستان سے لاتعلقی
علیمہ خان نے تحریک تحفظ آئین پاکستان کی دو روزہ کانفرنس کے اعلامیے سے لاعلمی کا اظہار کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ انہیں اس اعلامیے کی تفصیلات کا علم نہیں اور نہ ہی یہ عمران خان کے براہِ راست مؤقف کی نمائندگی کرتا ہے۔
ان کے مطابق عمران خان کے بیانات اور پیغامات کو سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا جا رہا ہے، جس سے کارکنوں میں کنفیوژن پیدا ہو رہی ہے۔
علیمہ خان کی حکومت اور عدلیہ پر تنقید، توشہ خانہ کیس میں انصاف کے فقدان پر شدید ردعمل
22 نومبر کے احتجاج کا حوالہ
علیمہ خان نے بتایا کہ عمران خان نے گزشتہ سال 22 نومبر کو پرامن احتجاج کی کال دی تھی۔ ان پر الزام عائد کیا گیا کہ انہوں نے بانی پی ٹی آئی کا پیغام عوام تک پہنچایا، تاہم ان کے مطابق یہ ان کی سیاسی اور اخلاقی ذمہ داری تھی۔
انہوں نے زور دے کر کہا کہ عمران خان نے ہمیشہ پرامن سیاسی جدوجہد کی بات کی ہے۔
توشہ خانہ کیس پر مؤقف
علیمہ خان کا کہنا تھا کہ بانی پی ٹی آئی اور بشریٰ بی بی کے خلاف توشہ خانہ کیس ایک بوگس مقدمہ ہے۔ ان کے مطابق عمران خان نے حالیہ پیغام میں کہا ہے کہ وہ قوم کے لیے ہر قربانی دینے کو تیار ہیں، حتیٰ کہ شہادت بھی قبول کریں گے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ عمران خان کو جیل میں مطالعے کے لیے 11 کتابیں بھیجی گئیں تھیں، جن میں سے 9 کتابیں انہیں موصول ہو چکی ہیں۔
سیاسی صورتحال پر اثرات
علیمہ خان کے بیانات کے بعد پی ٹی آئی کے اندرونی اختلافات اور مذاکرات سے متعلق بحث مزید شدت اختیار کر گئی ہے۔ سیاسی مبصرین کے مطابق یہ مؤقف پارٹی کی آئندہ حکمتِ عملی پر گہرے اثرات مرتب کر سکتا ہے۔
