ضلع جہلم میں سیمنٹ ایجنسیز مالکان کی جانب سے مبینہ طور پر خود ساختہ بحران پیدا کر کے سیمنٹ نایاب بنا دیا گیا ہے۔ اس صورتحال کے باعث تعمیراتی شعبہ شدید دباؤ کا شکار ہو چکا ہے اور شہریوں کو غیر معمولی مشکلات کا سامنا ہے۔
سیمنٹ کی مصنوعی قلت اور بلیک مارکیٹنگ
ذرائع کے مطابق سیمنٹ ایجنسیز مالکان نے جان بوجھ کر سپلائی محدود کر دی ہے۔ اس اقدام کا مقصد منافع خوری بتایا جا رہا ہے۔ مارکیٹ میں سیمنٹ کی کمی کے باعث بلیک مارکیٹنگ کھلے عام جاری ہے۔
اطلاعات کے مطابق فی بوری سیمنٹ پر دو سو روپے تک اضافی رقم وصول کی جا رہی ہے۔ خریدار مجبوری کے عالم میں زائد قیمت ادا کرنے پر مجبور ہیں۔ اس تمام صورتحال کے باوجود ضلعی انتظامیہ کی جانب سے تاحال کوئی مؤثر کارروائی سامنے نہیں آ سکی۔
تعمیراتی سرگرمیاں شدید متاثر
ضلع بھر میں سیمنٹ کی طلب معمول کے مطابق موجود ہے، مگر سپلائی جان بوجھ کر کم رکھی جا رہی ہے۔ اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بعض ڈیلرز اور ایجنسیز من مانی قیمتیں وصول کر رہے ہیں۔
تعمیراتی شعبے سے وابستہ افراد کا کہنا ہے کہ قیمتوں میں اس غیر قانونی اضافے نے جاری منصوبوں کو شدید متاثر کیا ہے۔ کئی مقامات پر تعمیراتی کام مکمل طور پر رک چکا ہے۔ ٹھیکیداروں کو مالی نقصان کا سامنا ہے، جبکہ مزدور طبقہ بھی متاثر ہو رہا ہے۔
ترقیاتی منصوبوں پر منفی اثرات
متاثرہ افراد کے مطابق اگر یہی صورتحال برقرار رہی تو سرکاری اور نجی ترقیاتی منصوبے تاخیر کا شکار ہو جائیں گے۔ عام شہریوں کے لیے گھروں کی تعمیر پہلے ہی مہنگی ہو چکی ہے، جبکہ سیمنٹ کی قلت نے مسائل میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔
شہریوں کا الزام ہے کہ ایجنسیز مالکان انتظامیہ کی عدم توجہی کا فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ ان کے مطابق بلیک مارکیٹنگ کرنے والوں کو قانون کا کوئی خوف نہیں رہا۔
وزیراعلیٰ پنجاب سے کارروائی کا مطالبہ
تعمیراتی شعبے سے وابستہ افراد اور شہری حلقوں نے وزیراعلیٰ پنجاب سے مطالبہ کیا ہے کہ سیمنٹ ایجنسیز اور ڈیلرز کے خلاف سخت قانونی اور فوجداری کارروائی کی جائے۔
مطالبہ کیا گیا ہے کہ مصنوعی قلت پیدا کرنے والوں کو کٹہرے میں لایا جائے۔ ساتھ ہی ضلع بھر میں نافذ مبینہ جنگل کے قانون کا خاتمہ کیا جائے۔ شہریوں کے مطابق فوری اقدامات ہی تعمیراتی سرگرمیوں کی بحالی اور عوامی ریلیف کو یقینی بنا سکتے ہیں۔
