اسلام آباد: پاکستان تحریکِ انصاف کے بانی عمران خان نے ایک بار پھر حکومت کے ساتھ مذاکرات کی تجویز مسترد کر دی ہے۔ ان کے حالیہ بیان نے واضح کر دیا ہے کہ موجودہ سیاسی صورتحال میں پی ٹی آئی کا مؤقف تبدیل نہیں ہوا۔ حکومت نے بھی دوٹوک الفاظ میں کہا ہے کہ معافی یا اظہارِ ندامت کے بغیر بامعنی مذاکرات ممکن نہیں۔
عمران خان کا مؤقف اور پارٹی پالیسی
عمران خان نے سماجی رابطوں کے پلیٹ فارم ’’ایکس‘‘ پر جاری بیان میں واضح پیغام دیا۔ ان کے بیان کو محمود خان اچکزئی کی جانب سے مذاکرات کی اپیل کا عملی ردِعمل قرار دیا جا رہا ہے۔ پی ٹی آئی کے سیکرٹری اطلاعات شیخ وقاص اکرم نے کہا کہ احتجاجی تحریک سے متعلق عمران خان کی ہدایات حتمی ہیں۔ پارٹی قیادت انہی پر عمل کرے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ عمران خان نے وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کو ہدایت دی ہے۔ یہ ہدایت قانون کی حکمرانی اور آئین کی بالادستی کے لیے احتجاجی تیاری سے متعلق ہے۔ شیخ وقاص اکرم کے مطابق پارٹی پالیسی میں کوئی ابہام نہیں۔
محمود خان اچکزئی کی اپیل
گزشتہ روز اپوزیشن اتحاد کی قومی کانفرنس میں محمود خان اچکزئی نے مذاکرات پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ آئین کو شدید نقصان پہنچایا گیا ہے۔ انہوں نے نواز شریف اور مولانا فضل الرحمٰن سے کردار ادا کرنے کی اپیل کی۔ ان کا مؤقف تھا کہ ملک کو بحران سے نکالنے کے لیے مکالمہ ناگزیر ہے۔
اسی دن عمران خان نے اپنے بیان میں سخت تنقیدی انداز اپنایا۔ انہوں نے فیلڈ مارشل پر تنقید کی اور احتجاجی تحریک کی تیاری کا عندیہ دیا۔ اس بیان کو مذاکرات سے واضح انکار کے طور پر دیکھا گیا۔
حکومت کا سخت ردِعمل
وزیراعظم شہباز شریف کے قریبی ذرائع نے حکومت کا مؤقف واضح کیا۔ ان کے مطابق 9 مئی کے واقعات کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ فوجی تنصیبات پر حملے سنگین جرم ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ فوج مخالف مہم پر معافی کے بغیر مذاکرات ممکن نہیں۔
ذرائع کے مطابق حکومت سمجھتی ہے کہ ان واقعات پر جوابدہی ضروری ہے۔ اظہارِ ندامت کے بغیر اعتماد بحال نہیں ہو سکتا۔ ایسے حالات میں بات چیت کا آغاز ممکن نہیں۔
سیاسی منظرنامہ اور مستقبل
موجودہ صورتحال میں فریقین کے مؤقف میں واضح خلیج دکھائی دیتی ہے۔ ایک طرف پی ٹی آئی احتجاجی راستہ اختیار کرنے پر قائم ہے۔ دوسری طرف حکومت معافی کو مذاکرات کی شرط قرار دے رہی ہے۔ یہ تعطل ملکی سیاست میں مزید تناؤ کا سبب بن سکتا ہے۔
