ڈھاکا میں طلبہ تحریک کے رہنما شریف عثمان ہادی کی تدفین، محمد یونس اور عوام کی بڑی تعداد شریک

تازہ ترین خبروں اور تبصروں کیلئے ہمارا وٹس ایپ چینل جوائن کریں

بنگلادیش کی حالیہ طلبہ تحریک کے نمایاں اور متحرک رہنما شریف عثمان ہادی کو ان کے آبائی شہر ڈھاکا میں سپردِ خاک کر دیا گیا۔ ان کی نمازِ جنازہ میں ملک کی اہم سیاسی و سماجی شخصیات سمیت ہزاروں افراد نے شرکت کی، جس سے ان کی مقبولیت اور عوامی اثر و رسوخ کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

latest urdu news

بنگلادیشی میڈیا کے مطابق شریف عثمان ہادی، جو انقلاب منچہ کے ترجمان بھی تھے، ایک قاتلانہ حملے میں شدید زخمی ہونے کے بعد سنگاپور میں دورانِ علاج انتقال کر گئے تھے۔ ان کی نمازِ جنازہ ڈھاکا میں پارلیمنٹ کے ساؤتھ پلازا میں ادا کی گئی، جہاں فضا سوگوار رہی اور ہر آنکھ اشکبار نظر آئی۔ نمازِ جنازہ میں بنگلادیش کے چیف ایڈوائزر محمد یونس نے خصوصی طور پر شرکت کی، جبکہ مختلف طلبہ تنظیموں، سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی کے نمائندے بھی بڑی تعداد میں موجود تھے۔

نمازِ جنازہ کے بعد شریف عثمان ہادی کو آہوں اور سسکیوں کے درمیان سپردِ خاک کر دیا گیا۔ اس موقع پر شرکا نے ان کی جدوجہد، قربانی اور طلبہ حقوق کے لیے خدمات کو خراجِ تحسین پیش کیا۔ متعدد مقررین نے کہا کہ عثمان ہادی نے اپنی زندگی ملک میں جمہوری اقدار اور طلبہ کے سیاسی شعور کو بیدار کرنے کے لیے وقف کر رکھی تھی۔

یاد رہے کہ شریف عثمان ہادی کی میت ایک روز قبل سنگاپور سے ڈھاکا پہنچائی گئی تھی۔ ان کے انتقال پر چیف ایڈوائزر محمد یونس نے ملک بھر میں ایک روزہ سوگ کا اعلان کیا تھا، جس کے تحت سرکاری عمارتوں پر قومی پرچم سرنگوں رکھا گیا اور مختلف تعلیمی اداروں میں تعزیتی تقریبات منعقد کی گئیں۔

بنگلادیش میں طلبہ تحریک کے رہنما شریف عثمان ہادی کی آخری رسومات، ہزاروں افراد کی شرکت

تفصیلات کے مطابق شریف عثمان ہادی 12 دسمبر کو ڈھاکا کے علاقے پرانا پلٹن میں انتخابی مہم کے دوران فائرنگ کے ایک واقعے میں شدید زخمی ہو گئے تھے، جہاں حملہ آوروں نے ان کے سر کو نشانہ بنایا۔ ابتدائی طور پر انہیں ڈھاکا میڈیکل کالج اسپتال اور بعد ازاں ایور کیئر اسپتال منتقل کیا گیا، تاہم حالت تشویشناک ہونے پر 15 دسمبر کو بہتر علاج کے لیے سنگاپور لے جایا گیا۔ بدقسمتی سے وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے سنگاپور جنرل اسپتال میں جمعرات کی شب انتقال کر گئے۔

واضح رہے کہ شریف عثمان ہادی جولائی 2025 میں حسینہ واجد حکومت کے خاتمے کا باعث بننے والی طلبہ تحریک کے اہم رہنماؤں میں شامل تھے۔ وہ نوجوانوں میں بے حد مقبول تھے اور طلبہ رہنماؤں کے قائم کردہ سیاسی پلیٹ فارم ’’انقلاب منچہ‘‘ کے ترجمان کی حیثیت سے نمایاں کردار ادا کر رہے تھے۔ ان کے انتقال کو بنگلادیش کی طلبہ سیاست کے لیے ایک بڑا نقصان قرار دیا جا رہا ہے۔

شیئر کریں:

ہمیں فالو کریں

frontpage hit counter