راولپنڈی کی اڈیالہ جیل کے باہر ہونے والے احتجاج اور دھرنے کے معاملے پر پولیس نے سخت قانونی کارروائی کا آغاز کر دیا ہے۔ تھانہ صدر بیرونی نے گزشتہ رات ہونے والے دھرنے کے سلسلے میں 35 نامزد ملزمان سمیت مجموعی طور پر 400 افراد کے خلاف مقدمہ درج کر لیا ہے۔ یہ مقدمہ انسداد دہشت گردی ایکٹ کی سنگین دفعات کے تحت درج کیا گیا ہے، جس نے سیاسی اور قانونی حلقوں میں ہلچل مچا دی ہے۔
پولیس کے مطابق یہ دھرنا علیمہ خان کی قیادت میں اڈیالہ جیل کے باہر دیا گیا تھا، جہاں احتجاجی مظاہرین نے مبینہ طور پر سیکیورٹی انتظامات کی خلاف ورزی کی اور پولیس کے احکامات کو نظر انداز کیا۔ درج مقدمے میں علیمہ خان کے ساتھ ساتھ نورین نیازی، قاسم خان، سلمان اکرم راجہ اور عالیہ حمزہ کو بھی نامزد کیا گیا ہے۔
ایف آئی آر کے متن کے مطابق دیگر نامزد ملزمان میں نعیم پنجوتھہ، تابش فاروق، طیبہ راجہ، نادیہ خٹک، ہارون، راجہ اسد عباس، ظفر گوندل اور شفقت عباس شامل ہیں۔ اس کے علاوہ مجلس وحدت المسلمین کے رہنما علامہ راجہ ناصر عباس کو بھی مقدمے میں شامل کیا گیا ہے۔
پولیس کا کہنا ہے کہ مقدمے میں نہ صرف دفعہ 144 کی خلاف ورزی بلکہ پولیس پر حملوں، سرکاری امور میں مداخلت اور عوام کو اشتعال دلانے جیسے الزامات بھی شامل کیے گئے ہیں۔ مزید برآں، مقدمے میں تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 120-B بھی شامل کی گئی ہے، جو ریاست کے خلاف مجرمانہ سازش کی منصوبہ بندی سے متعلق ہے، اور اسے انتہائی سنگین الزام تصور کیا جاتا ہے۔
بشریٰ بی بی اڈیالہ جیل میں قیدِ تنہائی میں، اہل خانہ اور وکلا سے ملاقات 8 ہفتے سے بند: مریم ریاض وٹو
پولیس ذرائع کے مطابق احتجاج کے دوران حالات کشیدہ ہونے پر کارروائی کرتے ہوئے 14 افراد کو موقع سے گرفتار کیا گیا، جنہیں بعد ازاں انسداد دہشت گردی عدالت میں پیش کر دیا گیا ہے۔ گرفتار ملزمان کے جسمانی ریمانڈ اور مزید تفتیش کے حوالے سے قانونی کارروائی جاری ہے۔
یاد رہے کہ یہ دھرنا عمران خان سے ملاقات کی اجازت نہ ملنے پر دیا گیا تھا، جس کے دوران کارکنوں کی جانب سے نعرے بازی اور سڑک بند کرنے کی اطلاعات بھی سامنے آئیں۔ پولیس کا مؤقف ہے کہ مظاہرین نے امن و امان کی صورتحال کو خراب کرنے کی کوشش کی، جس پر قانون کے مطابق کارروائی ناگزیر ہو گئی۔
