اسلام آباد کی انسداد دہشتگردی عدالت نے ایک اہم اور غیر معمولی اقدام کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا سہیل آفریدی سمیت صوبائی اسمبلی کے پانچ اراکین کو اشتہاری قرار دے دیا ہے۔ عدالتی فیصلے کے بعد ان تمام ملزمان کے اشتہارات بھی جاری کر دیے گئے ہیں، جن میں صوبائی وزرا اور دیگر منتخب نمائندے شامل ہیں۔
ذرائع کے مطابق انسداد دہشتگردی عدالت نے یہ فیصلہ سی ٹی ڈی اسلام آباد کی جانب سے درج دو مختلف مقدمات میں عدم پیشی پر سنایا۔ اشتہاری قرار دیے جانے والوں میں وزیراعلیٰ سہیل آفریدی کے علاوہ صوبائی وزرا مینا خان، شفیع جان، امجد علی اور اقبال آفریدی شامل ہیں۔ عدالت نے حکم دیا ہے کہ تمام ملزمان اشتہارات کے ذریعے مطلع کیے جائیں اور انہیں 30 روز کے اندر عدالت میں پیش ہونے کا موقع دیا جائے۔
عدالت کی جانب سے واضح کیا گیا ہے کہ اگر مقررہ مدت کے اندر ملزمان پیش نہ ہوئے تو ان کے خلاف قانون کے مطابق مزید سخت کارروائی عمل میں لائی جائے گی، جس میں جائیداد ضبطی اور گرفتاری کے احکامات بھی شامل ہو سکتے ہیں۔
عدالتی ریکارڈ کے مطابق وزیراعلیٰ سہیل آفریدی اور دیگر نامزد افراد کے خلاف 26 نومبر 2024 کو ہونے والے احتجاج کے تناظر میں تھانہ رمنا اسلام آباد میں مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ ان مقدمات میں سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے، امن و امان میں خلل ڈالنے اور قانون نافذ کرنے والے اداروں پر حملے جیسی دفعات شامل کی گئی ہیں۔
وزیرِ اعلیٰ خیبر پختونخوا سہیل آفریدی کو اشتہاری قرار دینے کی کارروائی کا آغاز
ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ کیسز صرف چند افراد تک محدود نہیں بلکہ تحریک انصاف کے خیبرپختونخوا اسمبلی کے ارکان کی بڑی تعداد اسلام آباد پولیس کو مطلوب ہے۔ پولیس کے مطابق خیبرپختونخوا اسمبلی کے تقریباً 80 فیصد اراکین پر اسلام آباد میں مختلف نوعیت کے مقدمات درج ہیں، جن میں سے کم از کم 70 ایم پی ایز تاحال اسلام آباد پولیس کو مطلوب ہیں۔
یہ مقدمات اسلام آباد کے 18 مختلف تھانوں میں 2022 سے لے کر نومبر 2024 کے دوران درج کیے گئے۔ پولیس حکام کا کہنا ہے کہ ان مقدمات میں دہشت گردی، پولیس اور رینجرز اہلکاروں پر حملوں، سرکاری اہلکاروں کی ہلاکت اور سنگین نوعیت کے دیگر الزامات شامل ہیں۔ مزید یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ان میں سے بیشتر اراکین اسمبلی نے اب تک کسی عدالت سے ضمانت بھی حاصل نہیں کی۔
اسلام آباد پولیس کے مطابق وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا سہیل آفریدی خود بھی 11 مختلف مقدمات میں مطلوب ہیں، جن میں سے سات مقدمات انسداد دہشتگردی ایکٹ کے تحت درج ہیں، جبکہ ان پر پولیس اہلکاروں پر حملے کے الزامات بھی عائد ہیں۔ سابق وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کے خلاف سب سے زیادہ 52 ایف آئی آرز درج ہونے کی اطلاعات ہیں، جبکہ سابق اسپیکر اسد قیصر کے بھائی عاقب اللہ کے خلاف بھی تھانہ سیکرٹریٹ میں مقدمہ درج ہے۔
سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق عدالت کا یہ فیصلہ ملکی سیاست میں نئی کشیدگی کو جنم دے سکتا ہے، جبکہ آنے والے دنوں میں قانونی اور سیاسی محاذ پر صورتحال مزید واضح ہونے کا امکان ہے۔
