مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما میاں جاوید لطیف نے سابق ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید پر انتہائی سنگین الزامات عائد کرتے ہوئے انہیں قومی مجرم قرار دے دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ فیض حمید نے ریاستی اختیارات اور سرکاری وسائل کو ذاتی مفادات کے حصول کے لیے استعمال کیا، جس کے نتیجے میں ملک کے ادارہ جاتی نظام کو شدید نقصان پہنچا۔
جیو نیوز کے پروگرام کیپیٹل ٹاک میں گفتگو کرتے ہوئے میاں جاوید لطیف نے کہا کہ فیض حمید نے حکومت کے انویسٹیشن سیل کو بھی ذاتی مقاصد کے لیے استعمال کیا۔ ان کے مطابق ایسے حساس اداروں کا مقصد ملکی معیشت کو مضبوط بنانا اور سرمایہ کاری کو فروغ دینا ہوتا ہے، مگر اس دور میں ان اداروں کو مخصوص ایجنڈے کے تحت چلایا گیا، جو ریاستی مفاد کے خلاف تھا۔
ن لیگی رہنما نے مزید کہا کہ فیض حمید نے سرکاری وسائل کے بے جا استعمال کے ذریعے ریاست کے چاروں ستونوں—انتظامیہ، مقننہ، عدلیہ اور میڈیا—کو ہلا کر رکھ دیا۔ ان کا دعویٰ تھا کہ اس وقت ملک کی داخلی اور خارجی پالیسی بھی درپردہ فیض حمید ہی ترتیب دے رہے تھے، جو کسی ایک فرد کے لیے نہ صرف غیر آئینی بلکہ خطرناک عمل بھی ہے۔
میاں جاوید لطیف نے اپنی ذاتی مثال دیتے ہوئے الزام لگایا کہ انہیں بغاوت کے ایک بے بنیاد مقدمے میں گرفتار کیا گیا اور دورانِ حراست شدید تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ سب اس لیے کیا گیا کیونکہ جنرل فیض حمید ان کی چیخیں سننا چاہتے تھے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر اتنا تشدد دشمن ملک کے جاسوس کلبھوشن یادیو پر کیا جاتا تو وہ تمام خفیہ راز فاش کر دیتا۔
فیض حمید کو سزا کافی نہیں، پورا گروہ بے نقاب ہونا چاہیے: جاوید لطیف
دوسری جانب پروگرام میں شریک کرنل (ر) انعام الرحیم ایڈووکیٹ نے بھی فیض حمید کے کردار پر سوالات اٹھائے۔ ان کا کہنا تھا کہ ملک میں لاپتہ افراد کے معاملے کی ذمہ داری بھی فیض حمید پر عائد ہوتی ہے اور اس حوالے سے براہِ راست ان سے جواب طلب کیا جانا چاہیے۔
کرنل انعام الرحیم نے دعویٰ کیا کہ اس دور میں نہ صرف سیاسی کارکن بلکہ صحافیوں کو بھی لاپتہ کیا گیا۔ ان کے مطابق ان تمام معاملات کی تحقیقات ضروری ہیں تاکہ حقائق عوام کے سامنے آ سکیں اور ذمہ داروں کا تعین ہو سکے۔
یہ بیانات ایک بار پھر پاکستان میں ماضی کے سیاسی و عسکری کردار، انسانی حقوق اور ادارہ جاتی مداخلت سے متعلق بحث کو تیز کر رہے ہیں، جس پر آنے والے دنوں میں سیاسی اور قانونی حلقوں کی جانب سے مزید ردِعمل سامنے آنے کا امکان ہے۔
