وزیرِ دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ فوج پر تنقید کرنا سیاسی عمل کا حصہ ہوسکتا ہے، لیکن کسی بھی سیاسی جماعت کو ایسی سرخ لکیریں عبور کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی جو ریاستی اداروں کی ساکھ اور قومی سلامتی کو متاثر کریں۔ انہوں نے واضح کیا کہ مسلم لیگ (ن) نے بھی ماضی میں اپنا مؤقف پیش کیا لیکن اسے کبھی ایسے انداز میں نہیں اٹھایا گیا جس سے اداروں کو متنازع بنایا جائے۔
خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ بانی پی ٹی آئی سے متعلق ڈی جی آئی ایس پی آر کی نیوز کانفرنس میں دیا گیا ردعمل فطری اور حالات کے مطابق تھا۔ ان کے مطابق اگر کوئی جماعت دہشت گردی کے خلاف ریاستی بیانیے کا حصہ نہیں بن سکتی اور شہیدوں کی قربانیوں کو تسلیم نہیں کرتی تو وہ قومی اتفاقِ رائے کو کمزور کرتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کی اعلیٰ قیادت کا بھارت کے میڈیا کو انٹرویو دینا نہ صرف غیر ذمہ دارانہ اقدام ہے بلکہ یہ ایک ایسا عمل ہے جو حساس خطے میں پاکستان کے موقف کو نقصان پہنچاتا ہے۔ ان کے بقول عمران خان کی ہمشیرہ کی بھارتی میڈیا سے گفتگو نے بھی حالات کو فیصلہ کن مرحلے تک پہنچایا اور ایسے وقت میں یہ باتیں کرنا خاص مقصد کے تحت محسوس ہوتی ہیں۔
جیل میں بیٹھا شخص ذہنی مریض ہے: ڈی جی آئی ایس پی آر
وزیر دفاع نے مزید کہا کہ گزشتہ چار سے پانچ برس میں ملک کو سیاسی انتشار اور ادارہ جاتی تنازع میں دھکیلنے کی بنیادی ذمہ داری عمران خان پر عائد ہوتی ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ سوشل میڈیا پر جاری مہمات پی ٹی آئی کی مرضی، منصوبہ بندی اور مکمل سرپرستی سے چلتی ہیں، اور آج تک اس جماعت نے ریاست مخالف مواد کی کھل کر مذمت نہیں کی۔
خواجہ آصف نے کہا کہ پی ٹی آئی کی اندرونی قیادت میں بھی دھڑے بندی اور تقسیم شدت اختیار کرچکی ہے۔ ان کے بقول بیرسٹر گوہر سمیت کئی رہنماؤں کو اپنی ہی جماعت کے کارکن سنجیدہ نہیں لیتے، جبکہ خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ تک دہشت گردی کے خلاف جنگ کے لیے موثر کردار ادا نہیں کر رہے۔ انہوں نے کہا کہ تحریک انصاف کھل کر ریاستی بیانیے سے انکار کرتی ہے اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کو اپنی سیاسی ترجیحات کی بھینٹ چڑھاتی ہے۔
وزیر دفاع نے مؤقف اپنایا کہ ریاست اور فوج کے خلاف منفی بیانیہ قومی یکجہتی کو کمزور کرتا ہے، اور ایسی سیاست ملک کے لیے نقصان دہ ہے۔
