وزیر دفاع خواجہ آصف نے ایک مرتبہ پھر سابق وزیراعظم عمران خان اور اُن کی اہلیہ بشریٰ بی بی سے متعلق سنگین الزامات عائد کیے ہیں۔ جیو نیوز سے خصوصی گفتگو میں انہوں نے کہا کہ برطانوی جریدے اکانومسٹ کی رپورٹ بالکل درست ہے اور بشریٰ بی بی سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض حمید کے لیے کام کرتی تھیں۔ اُن کے مطابق بشریٰ بی بی جو معلومات دیتی تھیں وہ چند روز میں درست ثابت ہو جاتی تھیں، جس سے واضح ہوتا ہے کہ وہ طاقتور حلقوں کے ساتھ براہ راست رابطے میں تھیں۔
خواجہ آصف نے دعویٰ کیا کہ بانی پی ٹی آئی عمران خان مکمل طور پر جنرل فیض حمید اور جنرل قمر جاوید باجوہ کے کنٹرول میں تھے۔ ان کے مطابق پاکستان کے ساتھ ایک سنگین مذاق کیا گیا، اور طاقت کے حصول کے لیے ایک خاتون کو سیاسی منظرنامے میں “لانچ” کیا گیا۔ انہوں نے الزام لگایا کہ چار پانچ سال کی لوٹ مار ایک منظم منصوبے کے تحت کی گئی، اور نواز شریف کے خلاف سپریم کورٹ میں ہونے والے فیصلے بھی اس منصوبے کی ایک کڑی تھے۔
وزیر دفاع نے کہا کہ لوٹ مار کے پیسے سے عمران خان کو حصہ ملتا تھا جبکہ باقی رقم بیرون ملک منتقل ہوتی رہی۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ پنجاب جیسے بڑے صوبے کے ساتھ سنگین کھیل کھیلا گیا۔ خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ آکسفورڈ سے تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود عمران خان نے ملک کو جادو ٹونے کے حوالے کر دیا، جو نہایت افسوسناک ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر بشریٰ بی بی دشمن ملک کے ہاتھ لگ جاتیں تو قومی سلامتی کے لیے سنگین نتائج سامنے آ سکتے تھے۔
انہوں نے مزید کہا کہ جنرل عاصم منیر نے بطور ڈی جی آئی ایس آئی عمران خان کو ایک تحریری رپورٹ دی تھی جس میں بشریٰ بی بی کا “کچا چٹھا” شامل تھا۔ اس رپورٹ کے بعد عمران خان ناراض ہوئے اور جنرل عاصم کو عہدے سے ہٹا دیا۔ خواجہ آصف نے سخت لہجے میں کہا کہ پی ٹی آئی والے عمران خان کو بہت عقلمند سمجھتے تھے لیکن ایک عورت نے اسے “بیچ ڈالا”۔ اُن کے مطابق لوٹ مار کے پیسے سے عمران خان کو ٹپ ملتی تھی جبکہ باقی رقم گوگی باہر لے جاتی رہی۔
ان الزامات کے پس منظر میں اکانومسٹ کی حالیہ رپورٹ بھی زیر بحث ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ بشریٰ بی بی عمران خان کے ذاتی اور سرکاری فیصلوں پر مکمل اثر رکھتی تھیں۔ رپورٹ میں ان رسومات کا بھی ذکر ہے جو بنی گالہ میں انجام دی جاتی تھیں، جن میں کالے بکرے یا مرغیاں قربان کرکے ان کے سر قبرستان میں پھینکوانا، عمران خان پر کچا گوشت گھمانا اور لال مرچیں جلانا شامل تھا۔ رپورٹ کے مطابق یہ سب کچھ عمران خان کے تحفظ اور اقتدار میں مضبوطی کے لیے کیا جاتا تھا۔
