پہلی جنگِ عظیم کے موقع پر سمندر میں پھینکے گئے پیغامات ایک صدی بعد دریافت

تازہ ترین خبروں اور تبصروں کیلئے ہمارا وٹس ایپ چینل جوائن کریں

آسٹریلیا کے ایک ساحل پر پہلی جنگِ عظیم کے دوران پھینکی گئی ایک بوتل دریافت ہوئی ہے جس میں 100 سال سے زائد پرانے دو فوجیوں کے ہاتھ سے لکھے گئے پیغامات موجود تھے۔

یہ حیرت انگیز دریافت مغربی آسٹریلیا کے Wharton ساحل پر اس وقت ہوئی جب ایک مقامی خاندان ساحل کی صفائی کر رہا تھا۔
پیٹر براؤن اور ان کی بیٹی فیلیسیٹی ساحل پر کچرا اکٹھا کر رہے تھے جب انہیں پانی میں بہتی ہوئی ایک موٹی شیشے کی بوتل نظر آئی۔

latest urdu news

پیٹر کی اہلیہ ڈیب براؤن نے بتایا کہ “ہم نے ساحل کی صفائی کے دوران کبھی کسی چیز کو نظر انداز نہیں کیا، یوں لگا جیسے یہ بوتل ہمارا انتظار کر رہی تھی۔

بوتل کے اندر دو آسٹریلوی فوجیوں میلکم نیویل اور ولیم ہارلے کے خطوط موجود تھے، جن پر 15 اگست 1916 کی تاریخ درج تھی۔

دونوں فوجی اُس وقت فرانس میں جنگ لڑنے کے لیے روانہ ہو رہے تھے اور 48 ویں آسٹریلین انفنٹری بٹالین کا حصہ تھے۔

میلکم نیویل ایک سال بعد جنگ کے دوران ہلاک ہوگیا جبکہ ولیم ہارلے دو بار زخمی ہونے کے باوجود زندہ بچ نکلا اور 1934 میں کینسر کے باعث وفات پا گیا۔ نیویل نے اپنے خط میں لکھا تھا کہ “میرا وقت اچھا گزر رہا ہے، کھانا بھی ٹھیک ہے، جہاز کا سفر مشکل ہے مگر ہم خوش ہیں۔” اس نے درخواست کی تھی کہ اگر کسی کو یہ خط ملے تو اسے اس کی ماں تک پہنچا دیا جائے۔

ڈیب براؤن کے مطابق، یہ بوتل ممکنہ طور پر ساحل کے ریتیلے ٹیلوں میں ایک صدی تک دفن رہی اور حالیہ مہینوں میں سمندری کٹاؤ کے باعث باہر آگئی۔

بوتل کے اندر موجود کاغذ کچھ نم ضرور ہوئے تھے مگر ان پر موجود تحریر ابھی بھی واضح تھی۔

ڈیب براؤن نے بعد میں دونوں فوجیوں کے خاندانوں سے رابطہ کیا۔ ولیم ہارلے کی پڑپوتی این ٹرنر نے اس دریافت پر کہا، “یہ تو کسی کرشمے جیسا ہے، ہمیں یوں لگا جیسے ہمارے پردادا قبر سے نکل کر ہم سے بات کر رہے ہوں۔”

میلکم نیویل کے خاندان نے بھی اس دریافت کو “ناقابلِ یقین لمحہ” قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس نے ان کے بکھرے ہوئے خاندان کو دوبارہ جوڑ دیا ہے۔

شیئر کریں:

ہمیں فالو کریں

frontpage hit counter