پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان استنبول میں ہونے والی چار روزہ مذاکراتی نشست نتیجہ خیز ثابت نہ ہوئی، جس کے بعد وفاقی حکومت نے کہا ہے کہ وہ سرحد پار سے ہونے والی دہشت گرد سرگرمیوں کو روکنے اور دہشت گردوں و ان کے معاونین کے خلاف کارروائیاں جاری رکھے گی۔
وفاقی وزیر اطلاعات عطا تارڑ نے سوشل میڈیا پر بتایا کہ مذاکرات میں قابل عمل حل سامنے نہیں آیا۔ ان کا موقف تھا کہ پاکستان نے واضح طور پر مطالبہ کیا کہ افغان سرزمین کو پاکستان مخالف دہشت گرد گروہوں کے حملوں کے لیے استعمال ہونے سے روکا جائے، تاہم طالبان نے شواہد کے باوجود اس کی کوئی یقین دہانی یا ضمانت نہیں دی۔
عطا تارڑ نے کہا کہ افغان وفد متعدد بار اصل مسئلے سے رخ موڑتا رہا، کلیدی نکات سے انحراف کیا گیا اور الزام تراشی، ٹال مٹول اور جواز تراشنے کے طریقہ کار اختیار کیے گئے۔ پاکستان کی جانب سے پیش کیے گئے شواہد انہیں قانع کرنے کے لیے کافی اور ناقابل تردید تھے، مگر مذاکرات کا بنیادی ایجنڈا — سرحد پار حملوں کا تسلسل بند کرانا — حل نہ ہوسکا۔
وزیر اطلاعات نے واضح کیا کہ پاکستان دہشت گردوں اور ان کے حامیوں کو ختم کرنے کے لیے موثر اقدامات اور آپریشنز جاری رکھے گا اور ملکی عوام کو دہشت گردی سے محفوظ رکھنے کے لیے تمام ضروری اقدامات کرے گا۔
Update on Pakistan – Afghanistan Dialogue, Istanbul – October 2025
Ever since the assumption of control in Kabul, Pakistan has repeatedly engaged with the Afghan Taliban Regime regarding persistent cross border terrorism by Indian-abetted Fitna al Khwarij (TTP) and Indian proxy,…
— Attaullah Tarar (@TararAttaullah) October 28, 2025
عطا تارڑ نے مذاکرات میں سہولت فراہم کرنے پر قطر اور ترکیہ کا شکریہ بھی ادا کیا اور کہا کہ دونوں ممالک نے افغان طالبان پر زور دیا کہ وہ دہشت گردی کو پاکستان پر دباؤ ڈالنے کے لیے استعمال نہ کریں۔
سرکاری ذرائع کا کہنا ہے کہ افغان طالبان وفد کے مؤقف میں بار بار تبدیلیاں اکثر کابل سے موصول ہدایات کی وجہ سے ہوتی رہیں، اور یہی غیر واضح ہدایات مذاکرات کے بے نتیجہ رہنے کی وجہ بنیں۔
یاد رہے کہ وزیر دفاع خواجہ آصف پہلے بھی کہہ چکے ہیں کہ اگر افغانستان کے ساتھ معاملات مذاکرات کے ذریعے حل نہ ہوئے تو اگلا آپشن عسکری سطح پر کارروائی ہی ہوگا۔ پاکستان کی واحد مانگ یہ ہے کہ سرحد پار سے دہشت گرد کارروائیاں روکی جائیں۔
