چیئرمین قومی احتساب بیورو (نیب) لیفٹیننٹ جنرل (ر) نذیر احمد نے کہا ہے کہ ادارے نے اصول بنا لیا ہے کہ کسی کی پگڑی نہیں اچھالی جائے گی، احتساب کا مقصد کردار کشی نہیں بلکہ شفافیت اور اصلاح ہے۔
اسلام آباد میں سینئر صحافیوں کے ساتھ اپنے پہلے باضابطہ مکالمے میں چیئرمین نیب نے ادارے کی اڑھائی سالہ کارکردگی، اصلاحات اور چیلنجز پر تفصیلی بات چیت کی۔ اس موقع پر ڈپٹی چیئرمین نیب جسٹس (ر) سہیل ناصر، ڈی جی نیب راولپنڈی و اسلام آباد وقار چوہان اور ڈی جی آپریشنز امجد اولکھ سمیت دیگر اعلیٰ افسران بھی موجود تھے۔
چیئرمین نیب نے بتایا کہ گزشتہ اڑھائی برسوں میں نیب نے 8 ہزار 397 ارب روپے کی ریکارڈ ریکوری کی ہے اور ادارے کو مکمل طور پر پیپر لیس نظام میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا سہیل آفریدی کے بیان پر تحقیقات شروع کر دی گئی ہیں۔ نیب کسی وزیر یا پارلیمینٹرین کو براہِ راست طلب نہیں کرتا، اس مقصد کے لیے اسپیکر آفس میں خصوصی ڈیسک قائم کیا گیا ہے جبکہ چیف سیکرٹریز اور مختلف چیمبرز میں بھی سہولت ڈیسک بنائے گئے ہیں۔
چیئرمین نیب کے مطابق، سرکاری افسران اور کاروباری شخصیات سے متعلق شکایات پہلے متعلقہ ڈیسک پر دیکھی جاتی ہیں، اور ان کے جوابات کی بنیاد پر کارروائی کی جاتی ہے۔
ڈی جی نیب لاہور سلیم شہزاد مستعفی، چیئرمین نیب کو 4 صفحات پر مشتمل خط ارسال
انہوں نے بعض ممالک پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ وہ اخلاقیات پر لیکچر تو دیتے ہیں لیکن منی لانڈرنگ کی روک تھام میں عملی تعاون نہیں کرتے اور خود اس کے مراکز بنے ہوئے ہیں۔
چیئرمین نیب نے مزید کہا کہ اڑھائی برسوں میں نیب کے ایس او پیز میں بنیادی تبدیلیاں کی گئیں جبکہ پارلیمان نے نیب ایکٹ میں دو بڑی ترامیم کی منظوری دی۔
انہوں نے واضح کیا کہ نیب کا مقصد خوف و ہراس پھیلانا نہیں بلکہ ان عناصر کے خلاف کارروائی کرنا ہے جو قومی دولت کی لوٹ مار میں ملوث ہیں۔ چیئرمین نیب نے یاد دلایا کہ پارلیمنٹ کی جانب سے کی گئی ترمیم کے مطابق، اب نیب 50 کروڑ روپے سے زائد کے مالی غبن کے مقدمات کی تحقیقات کا مجاز ہے۔
لیفٹیننٹ جنرل (ر) نذیر احمد نے آخر میں کہا کہ نیب آئین و قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے منصفانہ اور باوقار احتساب پر یقین رکھتا ہے، کیونکہ ادارے کی ساکھ عوام کے اعتماد سے ہی مضبوط ہوتی ہے۔
