پنجاب کے ضلع شیخوپورہ کی تحصیل مریدکے میں اتوار اور پیر کی درمیانی شب ایک مذہبی جماعت کے کارکنان کے پرتشدد احتجاج نے شدید بدامنی کی صورت اختیار کرلی۔ اس دوران پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپوں میں ایک ایس ایچ او شہید ہو گیا، 48 پولیس اہلکار زخمی ہوئے جبکہ متعدد شہری بھی متاثر ہوئے۔
واقعے کے بعد پولیس نے مذہبی جماعت کے سربراہ سعد حسین رضوی، ان کے بھائی انس رضوی اور دیگر قیادت کے خلاف انسدادِ دہشتگردی ایکٹ سمیت کئی سنگین دفعات کے تحت مقدمہ درج کر لیا ہے۔ ایف آئی آر مریدکے سٹی تھانے میں پولیس کی مدعیت میں درج کی گئی۔
ایف آئی آر کے مطابق، سعد رضوی نے اسٹیج سے پولیس پر براہ راست فائرنگ کی، جس کے نتیجے میں ایس ایچ او فیکٹری ایریا شدید زخمی ہو کر دم توڑ گئے۔ انس رضوی پر بھی فائرنگ میں ملوث ہونے اور دیگر اہلکاروں کو زخمی کرنے کا الزام ہے۔
مقدمے میں قتل (302)، اقدامِ قتل، ہجوم کو اشتعال دلا کر دہشت پھیلانے، اسلحے کی غیر قانونی نمائش اور دہشتگردی ایکٹ کی دفعات شامل کی گئی ہیں۔
پولیس کا کہنا ہے کہ واقعے میں ملوث متعدد افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے، تاہم جماعت کی اعلیٰ قیادت فرار ہو چکی ہے۔ ان کی گرفتاری کے لیے سرچ آپریشن جاری ہے۔ دوسری جانب، جماعت کے کارکنان کا دعویٰ ہے کہ سعد رضوی زخمی حالت میں گرفتار کیے گئے ہیں اور ان کا مطالبہ ہے کہ انہیں فوری طور پر منظر عام پر لایا جائے۔
مریدکے میں مذہبی جماعت کا دھرنا ختم، تصادم میں ایس ایچ او سمیت 5 افراد جاں بحق، متعدد زخمی
پولیس کے مطابق مظاہروں کا آغاز 12 اور 13 اکتوبر کی درمیانی شب ہوا، جب مشتعل کارکنان نے مرکزی شاہراہوں کو بند کر دیا۔ مظاہرین نے ابتدائی طور پر بات چیت سے احتجاج کو پرامن بنانے کی کوششوں کو رد کر دیا، اور قیادت کی جانب سے شرکاء کو مزید اشتعال دلایا گیا۔
پرتشدد احتجاج کے دوران مظاہرین نے پتھراؤ، کیلوں والے ڈنڈوں، پیٹرول بموں اور آتشیں اسلحے کا استعمال کیا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ کئی اہلکاروں سے سرکاری اسلحہ چھین کر مظاہرین نے خود پولیس پر ہی فائرنگ کی۔
صورتحال قابو سے باہر ہونے پر پولیس نے آنسو گیس، لاٹھی چارج اور دیگر حفاظتی اقدامات کیے، تاہم مظاہرین نے منظم انداز میں سرکاری و نجی املاک پر حملے شروع کر دیے۔ کم از کم 40 سے زائد گاڑیاں جلائی گئیں، جن میں ایک یونیورسٹی بس بھی شامل ہے، جبکہ متعدد دکانوں کو بھی آگ لگا دی گئی۔
پولیس ذرائع کے مطابق تصادم میں مذہبی جماعت کا ایک کارکن اور ایک راہ گیر بھی جاں بحق ہوئے، جب کہ 30 کے قریب شہری زخمی ہوئے۔
پولیس کا کہنا ہے کہ ریاست شہریوں کی جان و مال کے تحفظ کی ذمہ دار ہے، اور مستقبل میں ایسے پرتشدد مظاہروں سے نمٹنے کے لیے نئی حکمت عملی تیار کی جا رہی ہے تاکہ نقصان کو کم سے کم رکھا جا سکے۔
یہ واقعہ ایک بار پھر ملک میں انتہا پسندی، ریاستی رٹ اور عوامی سلامتی سے جڑے اہم سوالات کو اجاگر کر رہا ہے، جن پر فوری اور مؤثر اقدامات کی ضرورت ہے۔