سپریم کورٹ میں 26ویں آئینی ترمیم کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت کے دوران جسٹس امین الدین نے واضح کیا کہ جب تک آئین میں ترمیم نہیں ہوتی، عدالت سمیت سب کو موجودہ آئین پر ہی انحصار کرنا ہو گا۔
جسٹس امین کی سربراہی میں آٹھ رکنی آئینی بینچ نے مقدمے کی سماعت کی جس میں جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ ملک، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس نعیم افغان اور جسٹس شاہد بلال شامل ہیں۔
سماعت کے دوران لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کے وکیل حامد خان نے مؤقف اپنایا کہ 26ویں آئینی ترمیم پارلیمنٹ میں غیر معمولی طریقے سے اور رات کے وقت پاس کی گئی، اس ترمیم سے جوڈیشل کمیشن میں ججز کی اکثریت ختم کر دی گئی اور انتظامی نمائندوں کو بالادست بنا دیا گیا، جو عدلیہ کی آزادی کو متاثر کرتا ہے۔
حامد خان نے عدالت سے استدعا کی کہ اس انتہائی اہم آئینی معاملے پر فل کورٹ بینچ تشکیل دیا جائے، کیونکہ سپریم کورٹ کے وہ تمام ججز جو ترمیم کے وقت عدالت کا حصہ تھے، انہیں اس مقدمے میں شامل ہونا چاہیے۔
جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ عدالت نے فی الحال ترمیم کو معطل نہیں کیا، اور چونکہ درخواست گزار خود اس کو آئین کا حصہ سمجھ رہے ہیں، اسی بنیاد پر انہوں نے چیلنج بھی کیا ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ جوڈیشل کمیشن میں پارلیمانی کمیٹی کی شمولیت نئی بات نہیں، جبکہ جسٹس جمال خان مندوخیل نے درخواست گزار سے کہا کہ وہ بینچ کی تشکیل سے متعلق دلائل دیں، میرٹ پر بات نہ کریں۔
آخر میں جسٹس امین الدین نے استفسار کیا: "عدالت کو یہ بھی بتا دیں کہ آخر کیوں 16 رکنی بینچ تشکیل دیا جائے؟” — جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ عدالت پہلے بینچ کی آئینی حیثیت اور دائرہ اختیار پر غور کر رہی ہے، اس سے پہلے کہ اصل ترمیم کے قانونی نکات پر فیصلہ دیا جائے۔