نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے قومی اسمبلی میں خطاب کے دوران واضح کیا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے غزہ امن کے لیے پیش کیے گئے 20 نکات پاکستان یا اسلامی ممالک کے تیار کردہ نہیں، بلکہ وہ صرف ایک مشترکہ بیان کا حصہ ہیں۔
اسحاق ڈار کے مطابق یہ نکات صدر ٹرمپ کی ٹیم اور 8 اسلامی ممالک کے وزرائے خارجہ کی ملاقات کے بعد پیش کیے گئے تھے، جن میں سے بیشتر تجاویز پر اتفاق ہوا، تاہم ڈرافٹ من و عن تسلیم نہیں کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ اسلامی ممالک نے فلسطین اور غزہ کے مسئلے پر مشترکہ لائحہ عمل اختیار کیا ہے، اور پاکستان کا مؤقف آج بھی وہی ہے جو بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کا تھا۔ اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ فلسطین کا مسئلہ صرف فلسطینی عوام کا نہیں بلکہ پوری مسلم امہ کی ذمہ داری ہے۔
کسی خاص معاہدے پر پہلی بار سب متفق؟ ٹرمپ کے غزہ امن منصوبے کے نکات سامنے آ گئے
وزیر خارجہ نے بتایا کہ صدر ٹرمپ سے ملاقات کے دوران صرف ایک نکاتی ایجنڈے پر بات کی گئی، اور وہ تھا غزہ میں مکمل جنگ بندی۔ انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ، یورپی یونین اور دیگر عالمی ادارے غزہ میں انسانی بحران کو روکنے میں ناکام ہو چکے ہیں، جبکہ ہزاروں افراد بھوک، پیاس اور بمباری کا شکار ہیں۔
اسحاق ڈار نے صمود فلوٹیلا قافلے پر اسرائیلی حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اس انسانی امدادی مشن میں شریک 22 کشتیوں کو اسرائیل نے تحویل میں لے لیا ہے، اور اطلاعات کے مطابق سابق سینیٹر مشتاق احمد بھی ان میں شامل ہیں۔ انہوں نے اسرائیل سے کسی بھی قسم کے رابطوں کی سختی سے تردید کی اور کہا کہ "ہم اسرائیل کا نام بھی نہیں سننا چاہتے۔”
ایوان میں خطاب کے دوران اس وقت دلچسپ صورتحال پیدا ہوئی جب پی ٹی آئی کے رکن شاہد خٹک نے طنزیہ انداز میں سوال کیا کہ "شمع جونیجو ادھر کیا کر رہی تھیں؟” جس پر اسحاق ڈار نے مسکراتے ہوئے جواب دیا: "یار وہ میرا معاملہ نہیں ہے، میں سنجیدہ مسئلہ بتا رہا ہوں، بجلی کے کھمبے بھی لگے ہیں لیکن آپ کو شمع نظر آتی ہے۔” ایوان اس جملے پر قہقہوں سے گونج اٹھا۔
نائب وزیراعظم نے چین اور سعودی عرب کے ساتھ مضبوط تعلقات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ دونوں ممالک ہر مشکل وقت میں پاکستان کے ساتھ کھڑے رہے ہیں، اور سعودی عرب سے حالیہ دفاعی معاہدہ پاکستان کے لیے نہایت اہمیت رکھتا ہے۔