قطر کے دارالحکومت دوحا پر اسرائیلی حملے کے بعد پیدا ہونے والی سفارتی کشیدگی میں ایک اہم موڑ سامنے آیا ہے، جب اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو نے اس واقعے پر قطری وزیراعظم شیخ محمد بن عبدالرحمن بن جاسم الثانی سے باضابطہ معافی مانگ لی۔
بین الاقوامی میڈیا رپورٹس کے مطابق یہ معافی 9 ستمبر کو ہونے والے حملے کے تناظر میں دی گئی، جس میں اسرائیل نے دوحا میں حماس کے رہنماؤں کو نشانہ بنانے کی کوشش کی تھی۔ معافی کا یہ تبادلہ ایک اہم ٹیلی فونک رابطے کے دوران ہوا، جس کی میزبانی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس سے کی۔ اطلاعات کے مطابق، نیتن یاہو اور قطری وزیراعظم کے درمیان یہ رابطہ کئی منٹ طویل تھا۔
اسرائیلی کارروائی اس وقت کی گئی جب دوحا میں حماس کی اعلیٰ قیادت جنگ بندی معاہدے پر مشاورت کے لیے جمع تھی۔ اگرچہ حملے میں حماس کے اہم رہنما محفوظ رہے، تاہم غزہ میں تنظیم کے سربراہ خلیل الحیا کے بیٹے، حمام الحیا، اور ان کے دفتر کے ڈائریکٹر جہاد لبد شہید ہو گئے۔
حماس رہنما سہیل الہندی نے الجزیرہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ "حملے کا مقصد ہماری قیادت کو ختم کرنا تھا، مگر ہم محفوظ رہے۔” انہوں نے مزید کہا کہ "ہم اس حملے کا ذمہ دار امریکی انتظامیہ کو ٹھہراتے ہیں، ہماری قیادت کا خون بھی کسی فلسطینی بچے کے خون جیسا ہی قیمتی ہے۔”
دوحہ پر اسرائیلی حملے سے 50 منٹ قبل صدر ٹرمپ کو اطلاع دی گئی، امریکی میڈیا کا انکشاف
نیتن یاہو نے نہ صرف قطری خودمختاری کی خلاف ورزی پر معذرت کی بلکہ اس امکان کا بھی اظہار کیا کہ حملے میں شہید ہونے والوں کے لواحقین کو اسرائیل کی جانب سے معاوضہ دیا جا سکتا ہے۔ یہ پیش رفت اس وقت سامنے آئی ہے جب قطر، جو حماس اور اسرائیل کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کر رہا تھا، اس واقعے کے بعد مذاکراتی عمل سے علیحدہ ہو چکا تھا۔
رپورٹس کے مطابق یہ معافی غزہ میں جنگ بندی، یرغمالیوں کی رہائی، اور حماس کے ساتھ مذاکرات کی بحالی کے لیے جاری کوششوں میں ایک مرکزی کردار رکھتی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ قطر اب ممکنہ طور پر دوبارہ ثالثی کا کردار سنبھالنے پر آمادہ ہو سکتا ہے، جو خطے میں جاری انسانی بحران کے خاتمے کے لیے ایک اہم پیش رفت ہوگی۔
میڈیا ذرائع کے مطابق، نیتن یاہو سے ٹیلی فونک رابطے سے قبل قطری حکومت کے ایک سینئر مشیر نے وائٹ ہاؤس کا دورہ بھی کیا، جو اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ معافی کے اس عمل میں امریکی سفارتی دباؤ اور مداخلت کا اہم کردار رہا ہے۔