اقوام متحدہ نے ایران پر دوبارہ ایٹمی پروگرام سے متعلق پابندیاں نافذ کر دی ہیں، جس کے بعد تہران نے ان اقدامات کو "بلاجواز” اور "غیرقانونی” قرار دیتے ہوئے سخت ردعمل دینے کا اعلان کیا ہے۔ ایران نے واضح کیا ہے کہ وہ اپنے قومی مفادات کے دفاع میں کسی بھی حد تک جائے گا۔
برطانیہ، فرانس اور جرمنی کی جانب سے الزام عائد کیا گیا ہے کہ ایران نے 2015 کے جوہری معاہدے (جسے JCPOA بھی کہا جاتا ہے) کی خلاف ورزی کی ہے۔ اس معاہدے کا مقصد ایران کو ایٹمی ہتھیار بنانے سے روکنا تھا۔ تینوں یورپی ممالک نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے مطالبہ کیا کہ ایران پر دوبارہ پابندیاں نافذ کی جائیں، جس کے بعد یہ فیصلہ سامنے آیا۔
2006 سے 2010 کے درمیان سلامتی کونسل کی جو قراردادیں ایران پر عائد کی گئی تھیں، وہ پابندیاں اب دوبارہ نافذ کر دی گئی ہیں۔ یہ عمل 29 ستمبر کی شب (جی ایم ٹی کے مطابق) نافذ ہوا۔ پابندیوں میں ہتھیاروں کی خرید و فروخت، بیلسٹک میزائل پروگرام، اور دیگر اہم دفاعی و اقتصادی شعبے شامل ہیں۔
ایرانی وزارتِ خارجہ نے ان پابندیوں کو یکسر مسترد کرتے ہوئے کہا کہ "یہ غیرقانونی، بے بنیاد اور ناقابلِ قبول ہیں۔” تہران نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ ان اقدامات کو تسلیم نہ کرے۔ ایران نے اپنے مفادات کو نقصان پہنچانے والی کسی بھی کارروائی پر "سخت اور مناسب جواب” دینے کا اعلان کیا ہے۔
ایران نے احتجاجاً برطانیہ، فرانس اور جرمنی میں تعینات اپنے سفیروں کو مشاورت کے لیے واپس بلا لیا ہے۔ تاہم، ایرانی صدر مسعود پزشکیان نے واضح کیا ہے کہ ایران کا نیوکلیئر نان پرولیفریشن ٹریٹی (NPT) سے نکلنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔
روس نے بھی ان پابندیوں کو "غیرقانونی” قرار دیتے ہوئے تسلیم کرنے سے انکار کیا ہے۔ روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس کو خط لکھا، جس میں خبردار کیا گیا کہ ان پابندیوں کو تسلیم کرنا "بڑی غلطی” ہوگی۔
یورپی وزرائے خارجہ نے کہا ہے کہ اگر ایران ایٹمی معائنہ کاروں کو دوبارہ رسائی دے، یورینیم کے ذخیرے پر شفافیت برتے اور امریکا سے بات چیت پر آمادہ ہو تو پابندیاں چھ ماہ کے لیے مؤخر کی جا سکتی ہیں۔
امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے کہا ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ اب بھی ایران کے ساتھ نئے معاہدے کے خواہاں ہیں، لیکن شرط ہے کہ ایران "نیک نیتی” سے براہ راست مذاکرات کرے۔
ایران اور امریکا کے درمیان اس سال عمان کی ثالثی میں کئی دور کی بات چیت ہوئی، لیکن جون میں یہ مذاکرات اس وقت ختم ہو گئے جب اسرائیل اور امریکا نے ایرانی جوہری تنصیبات پر بمباری کی۔
یہ پابندیاں دراصل وہی "اسنیپ بیک” میکانزم ہیں جو 2015 کے معاہدے کے تحت معطل کر دی گئی تھیں۔ ان کے دوبارہ اطلاق سے ایران کی معیشت پر دباؤ میں اضافے کا امکان ہے، خاص طور پر جب امریکا پہلے ہی سخت اقتصادی پابندیاں لگا چکا ہے۔